’اب ہمیں یونیورسٹی آف جہاد نہیں، طالبان کابینہ کی یونیورسٹی کہا جائے گا‘

خیبر پختونخوا میں افغان سرحد سے تقریباً 100 کلومیٹر دور واقع دارالعلوم حقانیہ سے کئی طالبان رہنماؤں کا تعلق جوڑا جاتا ہے لیکن اب طالبان کی جیت کے بعد مدرسے کے سربراہ اس کے بارے میں تاثر کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 دارالعلوم حقانیہ کی بنیاد حامد الحق کے دادا عبدالحق نے 1947 میں پاکستان کی انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے چند ہفتوں بعد ہی رکھی تھی(اے ایف پی)

’اب ہمیں یونیورسٹی آف جہاد نہیں، طالبان کابینہ کی یونیورسٹی کہا جائے گا‘

یہ الفاظ پاکستان کے سب سے مشہور اسلامی مدارس میں سے ایک دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ نے ہنستے ہوئے کہے۔

اپنے چاہنے والے حامیوں، جن میں سے ایک زمین پر جھک ان کے پاؤں کا بوسہ لے رہے تھے، میں گھرے ہوئے مولانا حامد الحق نے ناقدین کی جانب سے ان کے مدرسے کو جہاد سے منسوب نام دینے کا مذاق اڑایا۔ ناقدین با رہا اس مدرسے کو بنیاد پرستی کا گڑھ قرار دیتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے سابق طلبہ میں افغان طالبان کے کچھ طاقتور اور خطرناک رہنما شامل ہیں جن میں سے بہت سوں کے نام دہشت گردوں کی عالمی فہرست میں شامل ہیں اور جن کو گذشتہ ماہ ہمسایہ ملک افغانستان میں اس گروپ کے اقتدار میں آنے کے بعد اب طالبان کی نئی کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں افغان سرحد سے تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس مدرسے سے جن طالبان رہنماؤں کا تعلق جوڑا جاتا ہے ان میں اس تحریک کے بانی ملا محمد عمر بھی شامل ہیں۔ ’ایک آنکھ  والے‘ ملا عمر وہی جنگجو تھے جنہوں نے اسامہ بن لادن کو پناہ دی تھی۔

مولانا حامد الحق نے کہا کہ اس مدرسے نے ملا محمد عمر کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی کیونکہ وہ ’افغانستان اور خطے میں امن لائے۔‘

یہی نہیں بلکہ امریکہ کی جانب سے دہشت گرد نامزد کیے گئے بدنام زمانہ حقانی نیٹ ورک کے سب سے بڑے نام جلال الدین حقانی (گروپ کے بانی) اور اب طالبان کے وزیر پناہ گزین خلیل حقانی بھی اسی مدرسے سے فارغ التحصیل ہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد بھی یہیں کے گریجویٹ ہیں۔

لیکن اس کے باوجود 54 سالہ حامد الحق ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہیں کہ ان کا یہ مدرسہ ’تشدد کا کارخانہ‘ ہے۔

حامد الحق جو پاکستان کے سابق رکن پارلیمنٹ اور مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ایس) کے نئے سربراہ بھی ہیں، کو طالبان کے رابطوں پر فخر ہے۔ وہ جلال الدین اور ان کے بیٹے سراج الدین حقانی (طالبان کے نئے وزیر داخلہ اور ایک مطلوب عسکریت پسند) کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے بعد ان کے گن گاتے ہوئے انہیں ’عاجز‘، ’بااخلاق‘ اور ’دور اندیش رہنما‘ کہتے ہیں۔

وہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار کو پھلتا پھولتا دیکھتے ہیں، ان کی عبوری کابینہ کے اعلان کو ان کی پوزیشن کے مطابق جائز قرار دیتے ہیں اور مغرب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ’مزید جنگ کو روکنے‘ کے لیے ان کی حکومت کو تسلیم کریں۔

حامد الحق نے کہا: ’ہم دہشت گردی یا عسکری یونیورسٹی کے طور پر اس مدرسے کی پہچان نہیں چاہتے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے بہت سے سابق طالب علم طالبان کی کابینہ میں شامل ہیں۔‘

طالبان کی نئی حکومت کی کابینہ کے نصف درجن سے زائد ارکان یا تو خود اس مدرسے سے فارغ التحصیل ہیں یا پھر ان کے خاندان کا کوئی نا کوئی فرد یہاں تعلیم حاصل کرنے آیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا ’اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان سمجھتے ہیں کہ یہاں سے فارغ التحصیل لوگ دور اندیش، انسان دوست اور تعلیم یافتہ ہیں۔ اسی لیے انہیں کابینہ میں منتخب کیا گیا کیونکہ وہ سیاسی اتار چڑھاؤ جانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ دنیا سے کیسے نمٹنا ہے۔‘

جس دن حامد الحق دی انڈپینڈنٹ سے بات کر رہے تھے وہ نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کی 20 ویں برسی کا دن تھا جس کے ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن نے افغانستان میں پناہ لے رکھی تھی اور اسی وجہ سے امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔

 

حامد الحق نے امریکہ میں ہونے والے ان خوفناک حملوں کی مذمت کی جس میں 2700 سے زائد افراد مارے گئے لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ اسامہ بن لادن ان کے ذمہ دار نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی حملے نے طالبان کو اپنا دفاع کرنے پر مجبور کیا تھا۔

وہ کہتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ حملوں کی 20 ویں برسی کے موقع پر امریکہ کی قیادت میں نیٹو کے فوجیوں کے انخلا کے بعد افغانستان واپس طالبان کے ہاتھوں میں آ گیا جو ’ایک قسم کا انصاف‘ ہے۔

ان کے بقول: ’امریکہ یہاں محبت پھیلانے نہیں آیا اور نہ ہی پھول بکھیرنے۔ وہ علاقے پر بمباری کرنے آئے تھے اور یہ لوگ یعنی طالبان محض اپنا دفاع کر رہے تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’واشنگٹن نے یہاں سے نکلنے کا صحیح فیصلہ کیا ہے۔ وہ بہت زیادہ رقم خرچ کر رہا تھا لیکن اسے معاشی، سیاسی اور اپنی افواج کے جانی نقصان کے لحاظ سے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔‘

عالمی شہرت یافتہ دارالعلوم حقانیہ، جو سنی اسلام کے ایک بنیاد پرست دیوبندی فرقے کی تعلیم دیتا ہے، کی بنیاد حامد الحق کے دادا عبدالحق نے 1947 میں پاکستان کی انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے چند ہفتوں بعد ہی رکھ دی تھی۔

عبدالحق کے جانشین ان کے بیٹے سمیع الحق تھے جنہیں ’طالبان کے باپ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ان کا خاندان اس نام کو ابھی بھی ایک اعزاز کی طرح دیکھتا ہے۔ سمیع الحق کو 2018 میں نامعلوم مسلح افراد نے قتل کر دیا تھا۔

سورج کی روشنی میں چمکنے والے گلابی رنگ والے مدرسے کے وسیع و عریض کیمپس میں اس وقت تقریبا 2800 طلبا رہائش پذیر ہیں۔ طلبہ کی یہ تعداد یہاں اس سے پہلے موجود سب سے زیادہ طلبہ کی تعداد کا نصف ہے۔

مدرسے کے گیٹ پر کلاشنکوفوں سے لیس محافظ کھڑے ہیں جب کہ روایتی اسلامی لباس میں مردوں کی قطاریں ہفتہ کی صبح نماز فجر کے بعد مصلے کندھوں پر ڈالے مسجد سے باہر نکلتے ہیں۔

ان کے سامنے شیشے کے اندر 1940 کی ایک پرانی گاڑی کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ اس کے باہر ایک بورڈ پر تحریر ہے کہ اسے عبدالحق نے 1970 کی دہائی میں تقاریر کرنے کے لیے پورے ملک کا دورہ کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ اس کے علاؤہ انہوں نے اقلیتی احمدی برادری کے خلاف تحریک میں بھی اسی گاڑی پر حصہ لیا تھا۔ یہ تحریر اس جگہ کے نظریاتی جھکاؤ کی ایک واضح یاد دہانی کراتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ احمدیوں کو پاکستان میں کئی دہائیوں سے ٹارگٹ کلنگ اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ایک اور یاد دہانی یہاں سے گریجویٹ کرنے والے طالبان کی فہرست ہے۔ دارالعلوم حقانیہ کے مشہور طالب علموں میں طالبان کے سپریم لیڈر اختر منصور بھی شامل تھے جو ملا عمر کے جانشین بنے لیکن وہ 2016 میں پاکستان کے صوبے بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔

بدنام زمانہ حقانی نیٹ ورک اور اس کے بانی جلال الدین حقانی کے نام اسی مدرسے ’حقانیہ‘ کے نام سے ہی پڑے کیونکہ جلال الدین نے یہیں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ (طالبان حقانی نیٹ ورک کے وجود سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جلال الدین طالبان کے ایک اعلیٰ رہنما ہیں)۔

بہرحال جلال الدین نے اپنے کئی بیٹوں کو بھی یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا جن میں طالبان کے نئے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی بھی شامل ہیں۔ (اگرچہ حامد الحق اس سے انکار کرتے ہیں)۔ سراج الدین کے سر پر ایک کروڑ امریکی ڈالر کا انعام ہے کیونکہ امریکہ ان پر 2008 میں کابل کے ایک ہوٹل پر ہونے والے حملے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ القاعدہ سے اس کے تعلقات کا بھی الزام لگاتا ہے۔

تاہم حامد الحق نے تصدیق کی کہ طالبان کے کئی دوسرے وزرا نے یہاں تعلیم حاصل کی ہے جن میں طالبان کے وزیر تعلیم عبدالباقی حقانی اور وزیر پناہ گزین خلیل حقانی شامل ہیں۔

طالبان کے شریک بانی اور نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر سمیت دیگر وزرا نے اپنے بیٹوں کو اس مدرسے بھیجا۔ ان کے والد اور چچا بھی یہاں پڑھتے رہے ہیں۔ اس طرح مدرسے کی تاریخ افغانستان اور پاکستان میں بہت سے تنازعات سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ 2500 کلومیٹر سرحد کا اشتراک کرنے والے ان دو ممالک میں ان گنت سیاسی، مذہبی اور ثقافتی روابط ہیں۔

پاکستان کے ماہرین نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ اس مدرسے کو 1980 کی دہائی میں اس وقت اہمیت حاصل ہوئی جب امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے دوران اسے مغربی انٹیلی جنس سروسز کی حمایت حاصل ہوئی۔ ان ایجنسیز نے اپنی سرگرمیوں کے لیے ایک مفید جگہ کے طور پر اس مدرسے کی بھر پور مالی مدد کی تا کہ سوویت کے ساتھ لڑنے والی مجاہدین کی ایک فوج یہاں تیار کی جا سکے۔

انہی ماہرین کا کہنا ہے کہ بعد میں مدرسے کو سعودی عرب کی طرف سے بھاری مالی اعانت دی گئی اور وہ اس وقت طالبان سے منسلک ہو گئے جب یہ گروپ 1990 کی دہائی کے اوائل میں افغانستان سے سوویت فوجیوں کے انخلا کے بعد شمالی پاکستان سے ابھرا۔

پاکستان کی عسکریت پسندی کے خلاف جدوجہد اور افغانستان کے ساتھ اس کے تعلقات کے بارے میں کئی کتابیں لکھنے والے ممتاز پاکستانی صحافی زاہد حسین یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں: ’میں نے کئی بار سمیع الحق (حامد الحق کے والد) کا انٹرویو کیا۔ انہوں نے ایک موقع پر اسامہ بن لادن کے ساتھ اپنے تعلق پر فخر کا اظہار کیا تھا۔‘

اس مدرسے کو سرحد کے دونوں طرف طالبان کے لیے ایک نظریاتی مرکز کہا جا سکتا ہے۔

طالبان کے بارے میں کئی کتابیں لکھنے والے احمد رشید کا کہنا ہے کہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں پاکستان کی طرف سے بھی مدرسے کی مدد بھی کی گئی تھی تاکہ ہمسایہ ملک افغانستان سے متصل علاقوں کے جنگجو سرداروں کا مقابلہ کیا جاسکے جو اہم تجارتی راستوں پر اس کے لیے رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ اس وقت یہ مدرسہ عالمی سطح پر معروف ہو گیا تھا۔ طلبا پوری دنیا سے یہاں آئیں گے۔ یہ ان کا جہاد کا پہلا تعارف تھا۔‘

دونوں ماہرین کا کہنا ہے کہ رابطوں کے باوجود یہ پاکستانی انتظامیہ کے کبھی تابع نہیں رہا۔

اس کے دروازے کبھی بند نہیں ہوئے یہاں تک کہ اس وقت بھی ایسا ممکن نہیں ہو سکا جب حکومت نے 2014 میں مدرسے کے قریبی شہر پشاور میں 100 سے زائد سکول کے بچوں کے قتل عام کے بعد بغیر لائسنس کے مذہبی سکولوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا عزم کیا تھا۔ 

آرمی پبلک سکول پر بیہمانہ حملے کی ذمہ داری طالبان کی پاکستان شاخ یعنی ’تحریک طالبان پاکستان‘ (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی۔ (ٹی ٹی پی کے مبینہ طور پر اس مدرسے سے بھی رابطے ہیں)۔

اس کے بجائے 2018 میں پاکستانی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ ملک کی حکمران جماعت ’پاکستان تحریک انصاف‘ کی صوبائی حکومت نے اس مدرسے کو 277 ملین روپے (10 لاکھ پاؤنڈ) سے زائد رقم جاری کی جس کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اس گرانٹ سے نصاب میں اصلاحات کی یقین دہانی کرائی جائے گی لیکن ناقدین کے خیال میں شاید اس کا سیاسی محرک تھا۔

اسی سال ہونے والے ایک الیکشن سے پہلے حامد الحق کے والد سمیع الحق اور ان کی جماعت جے یو آئی-ایس نے مختصر طور پر وزیراعظم کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی کے ساتھ انتخاب سے قبل اتحاد میں شمولیت اختیار کی تھی۔

2021 تک تیزی سے آگے بڑھتے ہیں جب اس مدرسے نے دوبارہ مرکزی حیثیت اختیار کرلی ہے۔

حامد الحق نے اپنے دفتر میں دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’جب طالبان کابینہ کا اعلان کیا گیا تو میں نے انہیں فون پر مبارکباد دی اور ان سے درخواست کی کہ وہ بہت احتیاط سے اپنا سفر جاری رکھیں کیونکہ دنیا انہیں غور سے دیکھ رہی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے طالبان کو سخت شرعی قانون کی سزائیں (خواتین کو کوڑے مارنے جیسی سزا) فوری طور پر لاگو کرنے کے خلاف خبردار کیا کیونکہ اسے ’مغرب‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھ سکتا ہے۔

حامد الحق کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ وسیع البنیاد حکومت، جب اس کا اعلان کیا جائے گا، زیادہ جامع ہوگی اور اس میں خواتین ارکان بھی شامل ہوں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان حکومت کو محتاط رہنا چاہیے تاکہ ان کی طویل جدوجہد ضائع نہ ہو جائے۔

دوسری جانب پڑوسی ملک پاکستان کے لیے یہ ’آگے کھائی پیچھے کنواں‘ جیسی صورت حال ہے جس کو طالبان نتظامیہ سے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے تنے ہوئے رسے سے گزرنا پڑے گا کیونکہ اسے طالبان سے ہی منسلک ٹی ٹی پی کی شکل میں داخلی طور پر دہشت گردی کا سامنا ہے۔

تقریبا 20 مذہبی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل ایک پلیٹ فارم کے سربراہ حامد الحق پاکستان کی ان کئی سخت گیر مذہبی شخصیات میں شامل تھے جنہوں نے افغانستان میں ’مغربی سامراج اور سیکولرازم‘ کے خلاف طالبان کی فتح کا خیر مقدم کیا۔

طالبان کے افغانستان کے ’امارت اسلامیہ‘ کے اعلان کے فورا بعد انہوں نے اپنے پیروکاروں سے ایک بیان میں کہا کہ طالبان نے ’افغانستان میں بے مثال امن و سلامتی‘ قائم کی ہے اور انہیں پاکستان میں بھی اسی طرح کی تبدیلی کی ’حوصلہ افزائی‘ کرنی چاہیے۔

ان کے بقول: ’ہاں مجھے امید ہے کہ یہ (افغان طالبان کی حکومت کا قیام) پاکستان میں ایک حقیقی اسلامی نظام کے لیے جدوجہد کی تحریک کو جنم دے گا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ جدوجہد ’جمہوری اور پرامن‘ ہونی چاہیے۔

انہوں مزید کہا: ’پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ یہاں بالآخر شرعی قانون قائم ہوگا اور تمام قوانین قرآن کے قانون کے تحت بنائے جائیں گے لیکن ہمارے ملک میں اب بھی برطانوی قوانین رائج ہیں۔‘

اور سوال یہ ہے کہ پاکستان کے لیے عملی طور پر یہ جدوجہد کیسی ہونی چاہیے؟

سینئر پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ ٹی ٹی پی سے تعلقات منقطع کرنے، انہیں الگ تھلگ کرنے اور بالآخر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے طالبان کی پاکستان شاخ کو غیر مسلح کرنے کے لیے لابنگ کر رہے تھے۔ 

پاکستان کے وزیر خارجہ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ طالبان نے زبانی طور پر پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغانستان کو پاکستانی سرزمین پر ٹی ٹی پی (یا داعش خراسان) کے دہشت گرد حملوں کے لیے سٹیجنگ گراؤنڈ کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

یہ خاص طور پر اس لیے بھی ضروری ہے جب ٹی ٹی پی نے صرف دو ہفتے قبل کوئٹہ کے قریب ایک خودکش دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

پاکستان کے خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی لے سربراہ جنرل فیض حمید بھی کابل گئے جہاں مبینہ طور پر یہ (ٹی ٹی پی کا) مسئلہ ان کے ایجنڈے میں سرفہرست تھا۔

دی انڈپینڈنٹ نے حقانیہ مدرسے سے کالعدم قرار دی جانے والی ٹی ٹی پی کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں جاننے کی کئی بار کوشش کی لیکن ہمیں کوئی واضح جواب نہیں ملا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم مدرسے اور حامد الحق نے بارہا دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

لیکن ان کے درمیان پریشان کن رابطے ہیں۔ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے 2007 کے قتل کی تفتیش کرنے والی پولیس نے کہا کہ ان کے قاتلوں (جنہیں پاکستانی طالبان کا رکن سمجھا جاتا ہے) کو اس منصوبے کے بارے میں اسی مدرسے کے ایک شعبے میں بریفنگ دی گئی تھی۔ 

ٹی ٹی پی نے بعد میں حامد الحق کے والد سمیع الحق کو 2014 میں حکومت کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات میں نمائندگی کے لیے نامزد کیا تھا۔

حامد الحق نے اصرار کیا: ’بہت سارے لوگ ہیں جو ہمیں الزام دیتے ہیں اور ہمیں دہشت گردی کی یونیورسٹی کہتے ہیں کیونکہ وہ اسلام کے خلاف ہیں۔ ہمیں ایک دہشت گرد تنظیم کا کیمپس قرار دے کر وہ لوگوں کو ہم سے اور اسلام سے خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس مدرسے نے امریکی اور افغان سفیروں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم کی میزبانی بھی کی ہے جبکہ ان کے والد نے خطے میں مفاہمت اور امن لانے کے لیے پاکستان، افغانستان اور طالبان کے درمیان اہم ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔

حامد الحق نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ ’آخری سانس تک میرے والد نے پوری انسانیت کے لیے پرامن کردار ادا کیا۔‘

جب ایک اور ساتھی ان کے پاؤں میں بیٹھا اور ان کی ٹانگیں دبانا شرع کیں تو حامد الحق نے موضوع پھر افغانستان کی طرف موڑ دیا۔ یہ انٹرویو ایک انتباہ کے ساتھ ختم ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مغربی دنیا اور پوری دنیا کی امیدیں اب پوری ہو جائیں گی جب طالبان اقتدار میں ہیں۔ لیکن انہیں پہلے طالبان حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے۔‘

’اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ دنیا مزید چار دہائیوں تک جنگیں چاہتی ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان