پاکستان: بچہ کہیں بھی ہو اس پر جسمانی تشدد اب ایک جرم

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بچوں کو جسمانی سزا دینے کی ممانعت کے بل کو  متفقہ طور پر منظور کر لیاہے۔ اس بل کے مطابق بچوں کو سزا دینا جرم ہوگا اور سزا دینے والے پر جرمانہ عائد کرنے کے علاوہ اس کو ملازمت سے برخاست کیا جائے گا۔

’مار دھاڑ کا سب سے برا اثر سکولوں کے بچوں پر ہوتا ہے اور وہ سکول جانا چھوڑ دیتے ہیں۔‘(فائل تصویر: اے ایف پی)

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بچوں کو جسمانی سزا دینے کی ممانعت کے بل کو  متفقہ طور پر منظور کر لیاہے۔

کل منظور ہونے والے اس بل کے مطابق بچوں کو سزا دینا جرم ہوگا اور سزا دینے والے پر جرمانہ عائد کرنے کے علاوہ اس کو ملازمت سے برخاست کیا جائے گا نیز بچوں پر جسمانی سزا کی مکمل ممانعت ہوگی۔

کوئی شخص،  تعلیمی ادارہ، پرائیویٹ یا سرکاری، دینی مدرسہ،  بحالی مراکز،  بچوں کی حفاظت کرنے والے سرکاری یا غیر سرکاری اداروں میں بچوں کے بال کھینچنا، کان پکڑنا،  کرنٹ لگانا، ہاتھ بیلٹ یا چمچہ مارنا،  جوتے سے مارنا وغیرہ جیسی سزا نہیں دی جاسکے گی۔

سزا یافتہ ملزم کو وفاقی محتسب میں اپیل کا حق ہوگا۔ یاد رہے یہ بل صرف دارلحکومت اسلام آباد کے لیے منظور کیا گیا ہے۔

اس بل کو 2019 میں قومی اسمبلی میں پیش کرنے والی سیاست دان اورپاکستان مسلم لیگ ن کی ممبر قومی اسمبلی مہناز عزیز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں 20برس سے تعلیم کے شعبے میں کام کر رہی ہوں۔ یہ اکیسیویں صدی ہے اور وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں بچوں کی مار کے خلاف کوئی چیز حتمی نہیں ہوئی تھی۔ میں نے 2019 کے شروع میں یہ بل اسمبلی میں جمع کروایا تھا اور اس بل کو یہاں تک لانے میں ڈھائی سال لگے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’قانون سازی کے لیے بہت محنت لگتی ہے۔ آپ کو لابنگ کرنی ہوتی ہے۔ ہر شخص جو سیاست میں ہے وہ بچوں کے بارے میں سوچ رہا ہوتا ہے اور نہ انہیں کوئی غرض ہوتا ہے۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ یہ پرائیوٹ ممبرز بل ہے لیکن اسے یہاں تک لانے میں حکومت، میڈیا، حزب اختلاف سب نے ساتھ دیا۔ ’اب مجھے سو فیصد امید ہے کہ جب یہ پارلیمنٹ میں پیش ہوگا تو متفقہ طور پر وہاں سے بھی پاس ہو جائے گا۔‘

مہناز عزیز کہتی ہیں کہ اس بل کا پاس ہونا بچوں کی جیت ہے ’18 سال تک کی عمر کے افراد بچوں میں شمار ہوتے ہیں۔ مار دھاڑ کا سب سے برا اثر سکولوں کے بچوں پر ہوتا ہے اور وہ سکول جانا چھوڑ دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے مار دھاڑ ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا حصہ بن چکا ہے یہاں تک کہ ٹی وی کے ڈراموں تک میں ہم مار دھاڑ دکھاتے ہیں جس کی وجہ سے ہم اس عمل کو معمول سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔ میں نے ڈھائی برس پہلے ہی چائلڈ رائٹس اینڈ پروٹیکشن کے حوالے سے ایک سب کمیٹی بنا دی تھی جو پہلے کبھی نہیں بنی۔ اس میں ہم بچوں سے متعلق قوانین کو دیکھتے ہیں۔‘

دیگر صوبوں میں جسمانی تشدد کے حوالے سے بنے قوانین کے حوالے سے مہناز نے بتایا ’صوبہ سندھ میں تو یہ بل پاس ہو چکا ہے۔ ہمارے پاس خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان میں یہ ایکٹس موجود ہیں ہیں کہ بچوں پر تشدد نہیں کرنا چاہیے لیکن اس طرح کا قانون نہیں ہے۔ میں یہ چاہ رہی ہوں کہ یہ بل پاس ہو جائے تو ہم اس کو ایک مہم بنا لیں اور پورے پاکستان میں پھیلائیں۔‘

بچوں پر سکول، مدارس، ورکشاپس، گھروں وغیرہ میں جسمانی تشدد کی ویڈیوز آئے روز سوشل میڈیا پرگردش کر رہی ہوتی ہیں۔ اسلام آباد میں گزشتہ برس ایک آٹھ سالہ بچی کی موت کا واقعہ سامنے آیا جو کسی کے گھر میں ملازمت کرتی تھی اور غلطی سے پالتو طوطے کا پنجرہ کھلا رہ گیا، طوطا اڑ گیا تو مالکان نے مبینہ طور پر اس بچی کو اس حد تک تشدد کا نشانہ بنایا کہ بچی جان سے چلی گئی۔

اس کے علاوہ لاہور کی ایک موٹر مکینک ورکشاپ پر بچے پر تشدد کی ویڈیا سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی، اسی طرح مدرسوں اور سکولوں میں مار کھاتے بچوں کی ویڈیوز بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایڈووکیٹ احمرمجید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’اصل میں پاکستان پینل کوڈ کا سیکشن 89 اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ بچے کی بہتری کے لیے یا اسے کچھ سکھانے کے لیے مار پیٹ کی جاسکتی ہے۔ ہاں اس مار پیٹ میں اسے جسمانی یا جانی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ یہ قانون بہت پرانا بنا ہوا ہے۔‘

احمر کا کہنا ہے کہ جسمانی تشدد کے حوالے سے پاکستان میں قانون موجود ہے۔ مختلف صوبوں کی اگر ہم بات کریں تو وہاں پر بھی قانون سازی کی گئی ہے۔ البتہ پنجاب کے اندر قانون تو موجود نہیں لیکن تین برس قبل لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی۔ کچھ سپیشل بچوں کے ساتھ ایک سکول وین میں برا سلوک کرنے کا واقع پیش آیا تھا جس پر کورٹ میں پٹیشن دائر کی گئی۔ اس پٹیشن میں اسی بات کو اجاگر کیا گیا تھا کہ پنجاب میں جسمانی تشدد کے حوالے سے کوئی قانون نہیں ہے اور پھر اس کے بعد سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے پنجاب میں جسمانی تشدد کو ایک نوٹفیکیشن کے ذریعے صوبے بھر میں بین کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’زندگی ٹرسٹ‘ کے بانی اور معروف گلوکار شہزاد رائے ایک لمبے عرصے سے بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس بل کے حوالے سے شہزاد رائے کا کہنا تھا ’اگر ہم اس ایشو کی تاریخ کی بات کریں تو عطیہ عنایت اللہ نے 2012 یا 13 میں قومی اسمبلی میں بل پیش کیا تھا تاکہ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 89 کو ختم کیا جائے اور بچوں کو جسمانی تشدد سے بچایا جائے لیکن وہ بل سینٹ سے منظور نہیں ہوسکا تھا۔ ہم کئی برس سے اس حوالے سے مہم چلائے ہوئے ہیں ہم نے سندھ میں ایسا نصاب بھی متعارف کروایا جو بچوں کو جسمانی تشدد سے بچائے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد جب صوبوں کی خود مختاری میں اضافہ کیا گیا تو ہم نے جسمانی تشدد کو ختم کرنے کے حوالے سے سندھ پر کافی زور ڈالا۔ جس کے بعد سندھ نے جسمانی تشدد کے خلاف اپنا قانون بنا لیا۔ لیکن اسلام آباد میں سیکشن 89 ابھی بھی چل رہا تھا۔ پنجاب میں بھی ایڈمنسٹریٹو آرڈر کے ذریعے بچوں پر جسمانی تشدد کو بین کیا گیا لیکن قانون وہاں بھی نہیں بنا۔ کے پی میں بھی قانون موجود تھا لیکن اس میں سیکشن 89 موجود تھا۔ بلوچستان میں بھی قانون نہیں ہے۔‘

’میں کرونا وبا پھیلنے سے کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ گیا تھا جس کے بعد جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت نے زندگی ٹرسٹ کی پٹیشن پر سیکشن 89 کو معطل کیا تھا۔ اور اسی کو بنیاد بناتے ہوئے مہناز اکبر نے اپنا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جس کو پاکستان تحریک انصاف اور سب نے سپورٹ کیا اور یہ بل منظور ہو گیا۔ اسلام آباد میں قانون بھی نہیں تھا اور سیکشن 89 پر بھی عمل ہو رہا تھا جب کہ باقی صوبوں میں جہاں قانون سازی ہوئی تھی وہاں تو سیکشن 89 ختم ہو گیا تھا لیکن اگر کسی صوبے میں انتظامی حکومت نے آرڈر جاری کیا تھا تو وہاں سیکشن 89 پر عمل ہو رہا تھا۔ اس بل کے پاس ہونے سے سیکشن 89 ختم ہو گیا ہے جس کا مطلب یہ اگر کسی صوبے میں قانون نہیں بنا اور انتظامی حکومت نے نوٹفیکیشن کے ذریعے جسمانی تشدد پر بین لگایا تھا تو وہاں بھی سیکشن 89 ختم ہو گیا ہے اس بل کے پاس ہونے سے۔ ‘

دوسری جانب سپیشل کوآرڈینیٹر وزیراعلیٰ پنجاب اور چئیرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو سارہ احمد نے  بچوں پر جسمانی سزاؤں کی ممانعت کے بل کو خوش آئند قرار دیا ہے سارہ کا کہنا ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد بچوں پر کسی بھی قسم کی مار یا تشدد قابل سزا جرم ہوگا اور امید ہے کہ پارلیمان جلد اس بل کی منظوری دے کر بچوں کے حقوق کے تحفظ کو ممکن بنائے گی۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان