ہم کس فضا میں سانس لے رہے ہیں!

پاکستان میں 22 فیصد اموات آلودگی کے باعث ہوتی ہیں اور ان میں سے اکثریت کی وجہ فضائی آلودگی ہے۔

چھ اکتوبر کو لاہور کی سڑکوں پر آلودگی سے دھند کا سا سماں ہے (اے ایف پی)

میں جب یہ کالم لکھنے بیٹھا تو سوئٹزرلینڈ کے ماحولیات پر کام کرنے والے تھنک ٹینک آئی کیو ایئر کے مطابق لاہور میں ہوا میں آلودگی ’خطرناک‘ ہے۔ کھانوں کے لیے پاکستان کا دارالحکومت کہلانے والا شہر لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا ہے۔ اور یہ اعزاز اس وقت ہی لاہور کو مل گیا ہے جب ابھی سموگ کا آغاز بھی نہیں ہوا۔

لاہور میں آلودگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ہوا کی کوالٹی کے حوالے سے گائیڈ لائنز سے 30 گنا زیادہ آلودگی لاہور میں ہے۔

تو اب لاہوریے کیا کریں؟ سب سے پہلے تجویز کیا گیا ہے کہ لاہور کے باسی وہ کریں جو انہوں نے شاید کووڈ 19 کے عروج پر بھی نہیں کیا۔ یعنی ماسک پہن کر باہر نکلیں۔ دوسرا گھروں کے اندر فضا کو صاف کرنے کے لیے air purifier کا استعمال کریں۔ گھروں کے دروازے کھڑکیاں بند رکھیں اور کھلی فضا میں ورزش کرنے سے اجتناب کریں۔

لاہور کی فضا میں اتنی آلودگی کہ اس کو خطرناک قرار دے دیا جائے کب سے ہے یہ تو کہنا مشکل ہے کیونکہ پاکستان میں فضا میں آلودگی کو جانچنے کا آغاز ہی 2017 میں ہوا۔ یہ کام بھی حکومت وقت نے نہیں بلکہ عام افراد نے شروع کیا اور جب پہلی بار آلودگی کے حوالے سے رپورٹ سامنے آئی تو اس پر بات ہونی شروع ہوئی۔

پنجاب حکومت میں اس وقت بھی ہلچل نہیں ہوئی۔ لیکن لاہور ہائی کورٹ نے حکومت کو احکامات دیے کہ سموگ سے نمٹنے کے لیے ایکشن پلان تیار کیا جائے۔ حکومت پنجاب کی ماحول تحفظ کونسل نے سموگ ایکشن پلان منظور کیا اور فضا میں آلودگی کو جانچنے کے لیے ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) کا نظام مرتب کیا۔

آسان الفاظ میں عالمی سطی پر ایئر کوالٹی انڈیکس اگر 50 یا اس سے کم ہو تو محفوظ قرار دی جاتی ہے۔ 100 اور ڈیڑھ سو کے درمیان بچوں اور دل کے عارضے میں مبتلا افراد کے لیے ممکنہ خطرہ ہے۔ 150 سے زیادہ سب کے لیے مضر ہے اور اگر انڈیکس 300 سے تجاوز کر جائے تو اس کو خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔

لیکن پاکستان میں نہیں۔ جہاں عالمی ادارے فضا میں آلودگی کو نہایت مضر صحت قرار دیتے ہیں تو وہاں پنجاب کی اے کیو آئی نظام اس کو moderately polluted یعنی تھوڑی سے آلودگی قرار دیتی ہے۔ اب آج ہی کی بات لے لیجیے۔ عالمی معیار کے مطابق لاہور میں آلودگی خطرناک حد تک ہے جب کہ پنجاب کے اے کیو آئی کے مطابق ’خراب‘ ہے۔ یعنی زیادہ دیر تک باہر رہنے سے لوگوں کو شاید سانس لینے میں تکلیف ہو اور دل کے عارضے میں مبتلا افراد کو بے چینی محسوس ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اور شاید اسی لیے تین بچیوں نے 2019 میں لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور استدعا کی کہ پنجاب حکومت کے اے کیو آئی کو ’غیر قانونی اور غیر معقول‘ قرار دیا جائے۔

 2020 میں سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے احکامات کے بعد حکومت پنجاب نے سموگ کو آفت قرار دیا اور صوبے میں فضا میں بڑھتی ہوئی آلودگی کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق فضائی آلودگی کے باعث دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں افراد اپنی جان گنواتے ہیں اور ان میں زیادہ تعداد کم اور متوسط آمدن کے افراد ہوتے ہیں جو اس آلودگی کا زیادہ سامنا کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی دس اموات میں سے ایک موت کی وجہ آلودگی ہے۔ پاکستان میں ہر سال سوا لاکھ سے زیادہ افراد فضائی آلودگی سے متعلق بیماریوں کے باعث اپنی جان کھوتے ہیں۔

زیادہ دیر تک فضائی آلودگی میں سانس لینے سے سانس کی تکلیف، پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں، حلق کی انفیکشن، دل کی بیماریاں اور اوسط عمر میں کمی واقع ہوتی ہے۔

سموگ کا سیزن اکتوبر سے دسمبر تک کا ہوتا ہے جس دوران کم معیار کا ایندھن استعمال ہوتا ہے، بے انتہا آلودگی اور فصلوں کو آگ لگائی جاتی ہے جس کے باعث فضائی آلودگی انتہائی زیادہ ہو جاتی ہے۔

برطانوی طبی جرنل لینسٹ کے مطابق پاکستان میں 22 فیصد اموات آلودگی کے باعث ہوتی ہیں اور ان میں سے اکثریت کی وجہ فضائی آلودگی ہے۔

کم آمدنی کے لوگ جیسے کہ مزدور وغیرہ اس فضائی آلودگی کی زد میں زیادہ آتے ہیں کیونکہ ان کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ سارا سارا دن کھلی فضا میں ہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک طرف روزگار کمانے کے لیے فضائی آلودگی میں کام کرنا اور دوسری جانب ہیلتھ کیئر تک آسانی سے رسائی بھی نہیں ہوتی۔ یعنی صرف وہ جن کو طبی سہولیات تک رسائی ہے اور وہ اس کا خرچ برداشت کرسکتے ہیں وہ ہی فضائی آلودگی کے مضر اثرات سے بچ پاتے ہیں۔

فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر سموگ کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس نے 2018 میں سموگ کمیشن رپورٹ پیش کی۔

اس رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ صرف لاہور ہی پر توجہ دے کر فضائی آلودگی کو کنٹرول کر کے کمی نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پنجاب ماحول تحفظ اتھارٹی (ای پی اے) کو صوبہ بھر میں 30 ایئر کوالٹی جانچنے کے سٹیشن بنانے ہوں گے تاکہ صوبہ بھر کی معلومات اور صورتحال کا جائزہ لیا جا سکے۔ تاہم اگر آپ ای پی اے پنجاب کی ویب سائٹ پر جائیں تو وہی دو سٹیشنز، ٹاؤن ہال اور ٹاؤن شپ، اور ایک موبائل وین کا ڈیٹا ملتا ہے۔

فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے عام شہری اسی وقت ہی احتیاطی تدابیر اپنا سکتے ہیں جب ان کی رسائی بھی ایسی معلومات تک ہوں جو ہر منٹ ان کو صورتحال سے آگاہ رکھیں۔ وقت پر معلومات ملنے پر لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس قسم کی فضا میں سانس لے رہے ہیں اور اس فضا میں آلودگی کی مقدار کیا ہے اور کیا اس میں سانس لینا مناسب بھی ہے یا نہیں۔

وزیر اعظم عمران خان تو کہہ چکے ہیں کہ فضائی آلوگی پر قابو پانا ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہے لیکن اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا بہت اہم ہے۔ حکومت کو سب سے پہلے پورے ملک میں فضائی آلودگی کو جانچنے کے لیے سٹیشنز قائم کرنے کی ضرورت ہے اور غیر معیاری ایندھن کے استعمال، دھواں دینے والی گاڑیوں، اینٹوں کے بھٹوں وغیرہ کی کڑی نگرانی ہنگامی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ اقدامات صرف سموگ کے سیزن کے دوران ہی نہیں بلکہ پورا سال کرنے کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات