20 سال میں 444 سرکاری ملازمین پلی بارگین لے کر سزا سے بچے

نیب کے ساتھ 2001 سے 2021 کے درمیان پلی بارگین کرنے والے سرکاری ملازمین میں استادوں اور چوکیداروں سمیت تقریباً ہر گریڈ، صوبے، کئی محکموں اور مختلف اداروں میں ذمہ داریاں انجام دینے والے افراد شامل تھے۔

نیب کے ساتھ پلی بارگین کرنے کی صورت میں مجرم آئندہ 10 سال کے لیے کسی عوامی عہدے پر فائز نہیں ہو سکتا (انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان میں کرپشن پر نظر رکھنے والے ادارے قومی احتساب بیورو (نیب) کے مطابق 2001 سے 2021 کے دوران تقریباً 450 سرکاری ملازمین نے پلی بارگین کے ذریعے خردبرد کی گئی رقوم کو سرکاری خزانے میں واپس جمع کروایا ہے۔ 

حال ہی میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں نیب کی جانب سے جمع کروائے گئے اعداوشمار کے مطابق ان سرکاری ملازمین میں سے میں سب سے زیادہ تعداد صوبہ پنجاب میں تعینات تھی، جبکہ سب سے کم بلوچستان میں ذمہ داریاں انجام دے رہی تھی۔

رکن قومی اسمبلی محمد عالم گیر خان نے یہ سوال قومی اسمبلی کے سوال جواب سیشن کے دوران اٹھایا تھا جس پر نیب نے تحریر اعدادوشمار جمع کروائے۔ 

پلی بارگین کیا ہے؟

نیب کے قانون کے مطابق بیورو کے چیئرمین احتساب عدالت کی اجازت سے بدعنوانی کے مقدمے کا سامنا کرنے والے ملزم سے خرد برد کی رقم وصول کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور ایسے انتظام کو پلی بارگین کہا جاتا ہے۔

نیب آرڈینینس 1999 کا سیکشن نمبر 25 (اے) اس متعلقہ قانون کے استعمال کا اختیار دیتا ہے۔

نیب کے سابق سپیشل پراسیکیوٹرعمران شفیق نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پلی بارگین کے لیے کرپشن ریفرنس کا سامنا کرنے والے ملزم کا گناہ کا اعتراف ضروری ہے، یعنی پلی بارگین کی صورت میں ملزم ’مجرم‘ بن جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا ’فرق صرف اتنا ہے کہ پلی بارگین کی صورت میں مجرم سزا (قید) سے بچ جاتا ہے۔‘

ایک دوسری صورت میں نیب کی تحقیقات کے دوران کوئی شخص رضاکارانہ طور پر مبینہ طور پر لوٹی ہوئی رقم واپس کرنے کو رضامند ہو جاتا ہے، جسے رضاکارانہ ادائیگی (Voluntary Return) کہتے ہیں۔

اس فہرست میں شامل بعض سرکاری ملازمین نے احتساب عدالت میں ان کے خلاف ریفرنس دائر ہونے سے قبل بھی نیب کے ساتھ رضاکارانہ ادائیگی کے معاہدات کیے ہیں۔

یہ بات سامنے آئی کہ پلی بارگین کرنے والے سرکاری ملازمین وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مختلف محکموں سے منسلک تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دلچسپ حقائق

نیب کے ساتھ پلی بارگین کرنے والے سرکاری ملازمین میں تقریباً ہر گریڈ، صوبے، کئی محکموں اور مختلف اداروں میں ذمہ داریاں انجام دینے والے افراد شامل تھے۔

1۔ صوبہ سندھ کے ضلع سکھر میں تعینات تین نائب قاصدین (peons)، چار چوکیدار، پرائمری سکول کے اساتذہ، جونئیر کلرکس اور ڈیٹا آپریٹرز نے بھی قید کی سزا سے بچنے کے لیے نیب کو پلی بارگین کے تحت کرپشن کی رقوم لوٹائیں۔

ان میں سے ایک چوکیدار نے 25 لاکھ روپے سے زیادہ، جبکہ ایک نائب قاصد نے تقریباً 17 لاکھ روپے واپس کر کے سلاخوں کے پیچھے جانے سے جان بچائی۔

2۔ پلی بارگین کا معاہدہ کرنے والے سرکاری ملازمین میں کم از کم آدھا درجن پٹواری بھی شامل ہیں، جنہوں نے کرپشن کے ذریعے حاصل کی ہوئی بڑی بڑی رقوم قومی خزانے میں جمع کروائیں۔

نیب کی دستاویز کے مطابق محمد زمان نامی ایک پٹواری نے 2007 میں نیب کے ساتھ پلی بارگین کا معاہدہ کر کے پانچ کروڑ بارہ لاکھ روپے واپس کیے، جبکہ ملتان میں تعینات ایک پٹواری نے اسی انتظام کے تحت ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم ادا کی۔

3۔ کرپشن کی اس بہتی گنگا میں کئی اساتذہ کرام نے بھی ہاتھ دھونے سے گریز نہیں کیا۔

ایک سرکاری پرائمری سکول کے استاد نے نیب کو  23 لاکھ روپے سے زیادہ واپس کیے، جبکہ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول شکارپور کی سابق ہیڈ مسٹریس کو بھی سلاخوں کے پیچھے جانے سے بچنے کے لیے کرپشن کے تقریباً چار لاکھ روپے پلی بارگین کے تحت واپس ادا کرنا پڑے۔

اسی طرح قومی اسمبلی سے حاصل کی گئی پلی بارگین کرنے والے سرکاری ملازمین کی فہرست میں کئی ہیڈ ماسٹروں، اساتذہ، اور دوسرے تعلیمی اداروں کے سربراہوں اور اہلکاروں کے نام شامل ہیں۔

4۔ دوسرے محکموں کی طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کئی اہلکاروں کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں، جن میں پولیس، ایف آئی اے، کسٹمز وغیرہ شامل ہیں۔ 

5۔ نیب کے ساتھ پلی بارگین کرنے والوں بی پی ایس 17 سے اوپر کے افسران کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جن میں سیکریٹری، ڈائریکٹرز اور جنرل منیجرز کی سطح پر ذمہ داریاں انجام دینے والے سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں۔

6۔ صوبے بلوچستان میں پانچ صوبائی سیکریٹریز نے نیب کے ساتھ الگ الگ پلی بارگین معاہدات کیے، اور کرپشن کے ذریعے کمائے ہوئے اربوں روپے قومی خزانے میں جمع کروائے۔

7۔ سال رواں کے دوران نیب کرپشن ریفرنسز کا سامنا کرنے والے ایک درجن سے زیادہ سرکاری ملازمین کے ساتھ پلی بارگین کے معاہدے کر چکا ہے۔

اہم اور بڑے پلی بارگین معاہدے

1۔ نیب کے ساتھ پلی بارگین کرنے والے سرکاری ملازمین میں سب سے اہم شخصیت پاکستان بحریہ سے تعلق رکھنے والے سابق ایڈمرل منصورالحق تھے، جنہوں نے 2002 میں کرپشن کے تقریباً 38 کروڑ روپے قومی خزانے میں جمع کروا کر سزا سے جان بچائی۔

ایڈمرل منصورالحق پر فرانس کے ساتھ آبدوزوں کی خریداری کے معاہدے میں رشوت وصول کرنے کا الزام تھا، جس کے باعث انہوں نے 1997 میں اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔

2۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر، جو اس وقت سی بی آر تھا) کے سابق چیئرمین اور وفاقی سیکریٹری اقبال فرید پر کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) میں مکان کی منتقلی پر فیس سے اجتناب، وراثتی دکانوں کی فروخت کے ویلتھ ٹیکس ریٹرن میں عدم انکشاف اور الاٹ شدہ رہائشی پلاٹ کی جگہ میں تبدیلی کے ذریعے ایک کروڑ روپے کی کرپشن کا الزام تھا۔

نیب کے مطابق اقبال فرید نے 2001 میں پلی بارگین کے ذریعے نیب کو ایک کروڑ روپے واپس ادا کیے تھے۔

3۔ احتساب بیورو کا کہنا ہے کہ ملٹری انجنئیرنگ سروسز (ایم ای ایس) کے سابق ایگزیکٹیو انجنئیر عبدالمجید بروہی پر پنوں عاقل کنٹونمنٹ میں تعمیراتی کام میں 8 کروڑ روپے سے زیادہ کی خرد برد کا الزام تھا، جو انہوں نے نیشنل سیونگ سرٹیفیکیٹس کی شکل میں رکھے ہوئے تھے۔

عبدالمجید بروہی نے 2004 میں نیب کے ساتھ پلی بارگین کے تحت خرد برد کی گئی رقم دو قسطوں میں واپس کر دی تھی۔

4۔ کراچی میں تعینات سابق کمشنر انکم ٹیکس سلطان احمد (بی پی ایس 20) نے ان کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کے دوران رضاکارانہ طور پر 20 لاکھ روپے سے زیادہ واپس ادا کیے۔

5۔ بلوچستان کے سیکریٹری تعلیم عبدالسلیم درانی نے 2001 میں نیب کے ساتھ پلی بارگین کا معاہدہ کیا، اور کرپشن کے ذریعے کمائے ہوئے تقریباً دو کروڑ روپے قومی خزانے میں واپس جمع کروائے۔

6۔ سرکاری دستاویز کے مطابق خیبر پختونخوا میں تعینات جنرل منیجر پی ٹی سی ایل سعید وزیر نے احتساب عدالت میں کرپشن ریفرنس کا سامنا کرنے کے بعد 2000 میں نیب کے ساتھ پلی بارگین کا معاہدہ کیا، اور دو کروڑ روپے واپس ادا کیے۔

7۔ اسلام آباد میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) میں بحیثیت ایگزیکٹیو ڈائریکٹر تعینات ڈاکٹر سید محسن علی نے 2005 میں پلی بارگین معاہدے کے تحت ساڑھے چار کروڑ روپے ادا کیے۔

8۔ سابق ڈائیریکٹر فنانس ایرا اسلام آباد اکرام نوید، جو پی ایچ اے لاہور میں بھی ڈائریکٹر فنانس کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے تھے نے 2018 میں نیب کے ساتھ پلی بارگین کے ذریعے تقریباً 94 کروڑ روپے قومی خزانے میں واپس جمع کروائے۔

9۔ چیف سینٹرل ایکسائز شوکت علی بھٹی نے 2003 میں پلی بارگین کے تحت 14 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم واپس ادا کی۔

10۔ بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سابق چیئرمین سعادت انور پلی بارگین معاہدے کے تحت چار کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم واپس کر چکے ہیں۔

نیب کے ساتھ پلی بارگین کرنے کی صورت میں مجرم آئندہ دس سال کے لیے کسی عوامی عہدے پر فائز نہیں ہو سکتا، جس میں سرکاری ملازمت بھی شامل ہے۔

نیب کے سابق سپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق کے مطابق پلی بارگین کا معاہدہ کرنے والے سرکاری ملازم کو اس کی ملازمت سے نکال (ٹرمینیٹ کر) دینا، اور وہ بھی بغیر کسی مراعات کے ہوتا ہے۔

قومی احتساب بیورو پر حزب اختلاف کی جانب سے حالیہ دنوں میں بدعنوانی کے خاتمے میں ناکامی کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ بیورو ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے اس نے اپنی کوششوں سے سرکاری خزانے میں اربوں روپے واپس ڈلوائے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان