ذہنی بیماری کے دعوے کی صورت میں کیا ملزم سزا سے بچ سکتا ہے؟

ذہنی بیماری یا نفسیاتی بیماری کی صورت میں اگر کسی سے قتل جیسا جرم سرزد ہو جائے تو پھر ملزم کو سزا سے بچنے کے لیے اُس کی ذہنی کیفیت سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟ اور قانون کے ماہرین اس حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں؟

ماہر قانون کا کہنا ہے کہ اگر مجرم سے جرم ہوا ہو  لیکن اُس کاایساکرنے کا ارادہ نہ ہوا تو اس بنیاد پر کچھ ریلیف مل سکتا ہے لیکن اس کے لیے بھی جانچ کرنا ہو گی کہ جرم کرتے وقت ذہنی کیفیت کیا تھی؟ اور جرم کے بعد ذہنی کیفیت کیا ہے؟ (پیکسلز)

نور مقدم کے قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے خلاف کارروائی اسلام آباد کی مقامی عدالت میں جاری ہے، جہاں حال ہی میں ملزم کی ذہنی حالت جانچنے کے لیے میڈیکل بورڈ کی تشکیل سے متعلق ایک درخواست مسترد ہوئی ہے۔

پاکستان میں قانون کسی قتل کے ملزم کی ذہنی حالت کو کس قدر مقدمے کی سماعت اور سزا کے وقت اہمیت دیتا ہے اور دوران سماعت اگر وہ ذہنی توازن کھو دیتا ہے تو پھر قانون اس کے ساتھ کیا سلوک تجویز کرتا ہے۔

اس بارے میں انڈپینڈنٹ اردو نے قانون ماہرین سے بات کی تو معلوم ہوا کہ کسی عدالت کو فیصلے تک پہنچنے کے لیے بہت سے پہلو دیکھنے پڑتے ہیں۔ 

سپریم کورٹ نے رواں برس فروری میں اپنے ایک فیصلے میں دو سزائے موت کے قیدیوں کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرتے ہوئے قرار دیا کہ اگر کسی مجرم کو ملنے والی موت کی سزا کا ادراک ہی نہیں ہے تو پھرانصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔

عدالت عظمیٰ میں قیدیوں کی بہبود کے لیے سرگرم ایک غیرسرکاری تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی جانب سے دو ذہنی مریضوں کنیزہ بی بی اور امداد علی کی سزائے موت کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔

اس پر سپریم کورٹ نے 91 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مجرمان کو پنجاب کے ذہنی امراض کے ہسپتال منتقل کرنے کا حکم دیا تاکہ ان کی ذہنی صحت کی جانچ ہو سکے۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جسٹس منظور ملک کی سربراہی میں پانچ رُکنی لارجر بینچ نے یہ فیصلہ دیا تھا۔

لیکن عدالت عظمیٰ نے اپنے تاریخ ساز فیصلے میں یہ بھی واضح کیا تھا کہ 'کسی ذہنی معذور قیدی کو سزائے موت سے اس وقت تک استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا جب تک ذہنی صحت کے ماہرین پرمشتمل بورڈ اس کی ذہنی کیفیت کا تعین نہ کریں۔‘

ماضی میں اس کے علاوہ بھی عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر کئی ملزمان کو ذہنی امراض کے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔

قانون کیا کہتا ہے؟

ذہنی بیماری یا نفسیاتی بیماری کی صورت میں اگر کسی سے قتل جیسا جرم سرزد ہو جائے تو پھر ملزم کو سزا سے بچنے کے لیے اس کی ذہنی کیفیت سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے، اور قانون کے ماہرین اس حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں؟

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ کسی بھی جرم کے دو جزو ہوتے ہیں۔ وہ مکمل ہوں تو جرم مکمل ہوتا ہے اور سزا بھی ملتی ہے: یعنی جرم کرنے کا عمل اور جرم کا ارادہ۔ اگر یہ دونوں ہوں تو مجرم سزا سے نہیں بچ سکتا۔

انہوں نے کہا اگر مجرم سے جرم ہو لیکن اس کا جرم کا ارادہ نہ ہوا تو اس بنیاد پر کچھ ریلیف ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے بھی جانچ کرنا ہو گی کہ جرم کرتے وقت ذہنی کیفیت کیا تھی، اور جرم کے بعد ذہنی کیفیت کیا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ یہ بہت پیچیدہ معاملہ ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کہا جائے کہ جرم کے ارتکاب کے وقت ملزم کی ذہنی کیفیت ٹھیک نہیں تھی لیکن ویسے وہ بالکل ٹھیک ہو تو اسے پاگل یا ذہنی معذور نہیں سمجھا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ قانون میں یا سزا ہوتی ہے یا بریت۔ اگر ذہنی معذوری ثابت ہو جائے تو مجرم کو سزا نہیں ہو گی بلکہ اسے ذہنی صحت کے مرکز یا اصلاحی مرکز بھیجا جائے گا۔

 ان سے جب سوال پوچھا گیا کہ سپریم کورٹ نے رواں برس ہی ذہنی معذوروں کی سزا کو سزائے موت سے عمر قید میں تبدیل کیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ یہ مقدمے پہ منحصر ہے۔ ’ہر ایک کے حالات اور واقعات مختلف ہوتے ہیں۔ اس کیس میں بھی عدالت نے پہلے میڈیکل بورڈ سے مکمل جانچ کرنے کا کہا تھا۔‘

 انہوں نے کہا کہ ہر ذہنی مریض پہ یہ لاگو نہیں ہوتا کہ اسے سزا سے استثنیٰ حاصل ہو جائے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اس استثنیٰ کا اطلاق صرف اس صورت میں ہو گا کہ جب ذہنی صحت پر مشتمل ماہرین کا ایک میڈیکل بورڈ مجرم کے مکمل معائنے اور جائزے کے بعد اس بات کا سرٹیفکیٹ دیں کہ اس کا ذہن اتنا بھی کام نہیں کرتا کہ وہ اپنے آپ کو دی جانے والی سزائے موت کی منطق سمجھ سکے۔

انہوں نے کہا ایسے ذہنی مریضوں کو بھی بالکل کُھلا نہیں چھوڑا جاتا کیونکہ اگر وہ ایک قتل کر سکتے ہیں تو مزید بھی کر سکتے ہیں۔ ’ایسے لوگ معاشرے کے لیے خطرہ ہیں انہیں الگ رکھا جاتا ہے۔‘

سیکریٹری اسلام آباد ہائی کورٹ بار تصدق حنیف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت اہم ہے کہ یہ ثابت ہو کہ جرم کے وقت مجرم کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی کیونکہ جرم کے وقت مجرم کی ذہنی حالت ٹھیک ہے پاگل پن کے زمرے میں نہیں آتا لیکن کیس کے ٹرائل کے دوران اس کی ذہنی حالت متاثر ہوتی ہے تو اس کا مجرم کو قطعی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اٗس کو وقتی طور پر ذہنی امراض کے ہسپتال بھیجا جا سکتا ہے لیکن ذہنی حالت ٹھیک ہونے پر سزا کا اطلاق ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ اگر جرم کے وقت مجرم نشے کے زیر اثر ہو ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے تو اس صورت حال میں بھی دیکھنا ہو گا کہ نشہ خود کسی طبعی وجوہات کی بنا پر کیا یا جان بوجھ کر۔

انہوں نے کہا ان دونوں صورتوں میں بھی سزا سے مکمل چھوٹ نہیں مل سکتی، کیونکہ ’ایسا شخص آزاد بھی نہیں چھوڑا جا سکتا وہ کسی کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔‘

’پاکستانی قوانین اب بین الاقوامی قوانین کی صف میں‘

جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے پبلک آؤٹ ریچ مینیجر محمد شعیب نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیراگراف 66 میں ذہنی امراض کے شکار لوگوں پر سزا کی پابندی سے متعلق بات ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا، ’یہ فیصلہ پاکستان کے مقامی قوانین کو بین الاقوامی قوانین کی صف میں لاکھڑا کرتا ہے۔‘

محمد شعیب کے خیال میں ذہنی امراض کی تعریف کو وسعت دی گئی ہے جیسا کہ کریمنل پروسیجر کوڈ میں دیکھا نہیں گیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت