’بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بجلی بحال کرنے کے لیے فوج طلب‘

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بجلی کے محکمے کے کم و بیش 20 ہزار سرکاری ملازمین کی ہڑتال کے باعث فوج کو بجلی بحال کرنے کے لیے طلب کر لیا گیا ہے۔

جموں میں پاور ڈیپارٹمنٹ کے ڈویژنل کمشنر نے وزارت دفاع کو ایک خط لکھ کر فوج طلب کی (فوٹو: عمر عبداللہ ٹوئٹر اکاؤنٹ)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بجلی کے محکمے کے ہزاروں ملازمین کی ہڑتال کے باعث فوج کو بجلی بحال کرنے کے لیے طلب کر لیا گیا ہے۔

جموں و کشمیر میں بجلی کی نجکاری کے خلاف اس ڈیپارٹمنٹ کے کم و بیش 20 ہزار سرکاری ملازمین غیر معینہ مدت تک کے لیے ہڑتال پر ہیں۔

2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کے خاتمے کے بعد یہاں کے پاور ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کو بھی دو حصوں یعنی پاور ٹرانسمیشن کارپوریشن ڈیپارٹمنٹ اور پاور ڈسٹری بیوشن کارپوریشن ڈیپارٹمنٹ میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔

ان میں اول الذکر کے ذمے 33 کے وی کے سے اوپر کی ٹرانسمیشن تھیں جبکہ پاور ڈسٹری بیوشن کا کام 33 کے وی تک کے گرڈ سٹیشنز دیکھنا ہے۔

اب حکومت نے یک طرفہ طور پر بجلی کے محکمے کو دو نجی کمپنیوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ دو کمپنیاں جموں اینڈ کشمیر پاور ٹرانسمیشن کارپوریشن لمیٹڈ (جے کے پی ٹی سی ایل) اور پاور گرڈ سٹیشن آف انڈیا لمیٹڈ (پی جی جی آئی ایل) ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس ہڑتال کی کال ’پاور ایمپلائز اینڈ انجینیئرز کوآرڈی نیشن کمیٹی (پی ای ای سی سی)‘ نامی تنظیم نے دے رکھی ہے۔

اتوار کو جموں میں پاور ڈیپارٹمنٹ کے ڈویژنل کمشنر نے وزارت دفاع کو ایک خط لکھ کر فوج طلب کرلی ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین کی ہڑتال کی وجہ سے ضروری سروسز متاثر ہو رہی ہیں، لہذا بجلی کی سپلائی کو بحال کرنے کے لیے فوج کی مدد کی ضرورت ہے۔

گورنر انتظامیہ کے اس فیصلے کو لے کر سوشل میڈیا پر کافی تنقید بھی ہو رہی ہے اور لوگوں کا کہنا ہے کہ گورنر کا یہ فیصلہ ملازمین کے حقوق پر شب خون مارنے کے مترادف ہے۔

کچھ لوگوں نے اسے ’نیا جموں کشمیر‘ ماڈل بھی قرار دیا۔

گورنر انتظامیہ کے اس فیصلے کو نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ٹویٹ کی کہ ’اس سے زیادہ انتظامیہ کی نالائقی کیا ہو سکتی ہے کہ بجلی بحال کرنے کے لیے فوج کی ضرورت پڑ رہی ہے۔‘

اس سے پہلے ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے پاور سیکٹر کی نجکاری کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایسے فیصلے جن کے دور رس نتائج ہوں، سیاسی قیادت پر چھوڑ دینے چاہییں۔‘

انڈین نیشنل کانگریس نے بھی سرکاری ملازمین کے مطالبات کو جائز قرار دیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا