ملزم ظاہر جعفر ذہنی مریض ہے یا نہیں؟ جائزہ لینے کی استدعا مسترد

بدھ کو ساڑھے 11 بجے سماعت شروع ہوئی تو ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے وکلا کے علاوہ تمام غیرمتعلقہ افراد کو کمرہ عدالت سے جانے کا کہا تاکہ نور مقدم کے قتل سے قبل کی سی سی ٹی وی فوٹیج کمرہ عدالت میں چلائی جا سکے۔

گذشتہ سال 20 اکتوبر کو پولیس اہلکار ملزم جعفر کوعدالت میں  پیشی کےبعد لے جاتے ہوئے (اے ایف پی) 

عدالت نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ذہنی مریض ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ لینے کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دیے جانے سے متعلق درخواست مسترد کر دی ہے۔

ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے بدھ کو محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ملزم ظائر جعفر کی درخواست خارج کردی۔ عدالت نے بدھ ہی کو فریقین کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

واضح رہے کہ گذشتہ ماہ نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین نے درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ مرکزی ملزم ذہنی مریض ہے اور اس کا میڈیکل کرایا جائے۔

درخواست میں باقاعدہ جانچ کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ عدالت نے مرکزی ملزم سمیت تمام ملزمان پر فرد جرم عائد کیا تاہم مرکزی ملزم نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا کیونکہ مرکزی ملزم کو عدالتی کارروائی کی کوئی سمجھ ہی نہیں آرہی تھی۔

عدالتی کارروائی میں کیا ہوا؟

بدھ کو ساڑھے 11 بجے سماعت شروع ہوئی تو ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے وکلا کے علاوہ تمام غیرمتعلقہ افراد کو کمرہ عدالت سے جانے کا کہا تاکہ نور مقدم کے قتل سے قبل کی سی سی ٹی وی فوٹیج کمرہ عدالت میں چلائی جا سکے۔

سی سی ٹی وی کے گواہ مدثر کے بیان پر جرح جاری رہی اور اس دوران تمام فوٹیج کمرہ عدالت میں چلائی گئی جس میں فوٹیج کا وہ حصہ بھی شامل تھا جو میڈیا میں پہلے لیک ہو چکا ہے۔

اِن کیمرہ سماعت کا عمل بیسمنٹ میں مکمل ہونے کے بعد عدالت نے دوبارہ میڈیا سمیت دیگر افراد کو کمرہ عدالت میں آنے کی اجازت دے دی۔

مدعی کے وکیل شاہ خاور، پبلک پراسیکیوٹر حسن عباس، ملزم کے وکیل سکندر ذوالقرنین سلیم نے ملزم کی دائر کردہ درخواست پر دلائل دیے۔

درخواست پر وکیل مدعی مقدمہ شاہ خاور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مختلف اوقات میں ظاہر جعفر ریمانڈ اور ٹرائل کے لیے عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں۔

پبلک پراسیکیوٹر حسن عباس نے دلائل دیے اور عدالتوں کے حوالہ جات پیش کرتے ہوئے کہا کہ درخواست  پر ملزم کے دستخط نا پاور آف اٹارنی ہے اس لیے یہ قابل سماعت ہی نہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے ٹرائل کےآغاز میں میڈیکل پینل بنانے کی درخواست کیوں دائر نہیں کی۔ 

پبلک پراسیکیوٹر حسن عباس نے مزید کہا کہ جس وکیل نے دائر کی وہ سٹیٹ کونسل ہے۔ ملزم نے چارج پڑھ کر یہ بھی کہا تھا کہ دفعہ 201 میرے پر کیوں لگائی گئی پھر دستخط کیے۔

پراسیکیوٹر حسن عباس نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جس جگہ وقوعہ ہوا ہے وہ انہوں نے کمپنی کا برانچ دفتر بنایا ہوا ہے۔ بیکن ہاؤس سکول میں مرکزی ملزم بچوں کی کونسلنگ کرتا رہا ہے، تو پھر خود یہ ذہنی مریض کیسے ہو سکتا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حسن عباس نے مختلف سکرین شاٹ اور مختلف عدالتوں کے فیصلے بھی عدالت کے سامنے پیش کیے۔

 دلائل کے بعد پبلک پراسیکیوٹر نے عدالت سے کہا کہ ملزم کے میڈیکل بورڈ کی درخواست کو مسترد کیا جائے۔

ملزم ظاہر جعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین جو کہ سٹیٹ کی طرف سے ظاہر جعفر کے وکیل ہیں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر پر ایک دوسرا مقدمہ بھی درج ہوا۔ دوسری ایف آئی آر میں جو کچھ لکھا ہے وہ آپ کے سامنے ہے، ملزمان کے دیگر وکلا نے عدالت کو شکایت لگائی کہ سوشل میڈیا پر ہمارے وکلا کو گالیاں دی جا رہی ہیں۔

اس پر مدعی وکیل شاہ خاور نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری طرف سے ایسا کچھ نہیں ہو رہا اور ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ وکیل جس کی طرف سے بھی پیش ہو وہ پروفیشنل ڈیوٹی کر رہا ہے۔‘

نور مقدم کے والد شوکت مقدم اور ظاہر جعفر کی والدہ عصمت آدم جی بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ سماعت کے اختتام کے قریب ملزمان ظاہر جعفر، والد ذاکر جعفر اور دیگر کو عدالت میں پیش کر کے حاضری لگائی گئی۔ اس موقع پر ظاہر جعفر مکمل خاموش رہے۔

عدالت آئندہ سماعت پر نور مقدم کے والد شوکت مقدم کا بیان ریکارڈ کرے گی اور تمام وکلا ان پر جرح کریں گے۔ عدالت نے نور مقدم قتل کیس کی سماعت 15 جنوری تک ملتوی کر دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان