برطانوی پولیس کو بھارتی آرمی چیف، وزیر داخلہ کی گرفتاری کی درخواست

ایک برطانوی لا فرم نے کشمیریوں پر تشدد، اغوا اور قتل کی دو ہزار سے زائد شہادتوں پر مبنی رپورٹ لندن پولیس کے جنگی جرائم کے یونٹ کو جمع کرواتے ہوئے بھارتی آرمی چیف جنرل منوج مکند نروانے اور وزیر داخلہ امت شاہ کی گرفتاری کی درخواست کی ہے۔

بھارتی آرمی چیف منوج مکند نراونے(دائیں) اکتوبر 2021 میں کولمبو میں ایک تقریب میں شریک ہیں  جبکہ  بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ (بائیں) اپریل 2021 میں ریاست تامل نادو میں انتخابات سے قبل چنئی میں ایک سیاسی ریلی میں موجود ۔ ایک برطانوی لا فرم نے پولیس کو  دونوں عہدیداروں پر جنگی جرائم کے الزامات کی تحقیقات کی درخواست دی ہے۔ (تصاویر: اے ایف پی)  

لندن میں قائم ایک قانونی فرم نے برطانوی پولیس کو ایک درخواست دائر کی ہے جس میں متنازع خطے کشمیر میں بھارتی آرمی چیف اور مرکزی وزیر داخلہ پر مبینہ جنگی جرائم میں ملوث ہونے پر ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق سٹوک وائٹ نامی لا فرم کا کہنا ہے کہ اس نے میٹروپولیٹن پولیس کے جنگی جرائم کے یونٹ کو جامع ثبوت پیش کیے ہیں کہ کیسے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سماجی کارکنوں، صحافیوں اور عام شہریوں پر تشدد، اغوا اور قتل کے پیچھے بھارتی فورسز کی سرابرہی کرنے والے جنرل منوج مکند نروانے اور وزیر داخلہ امت شاہ کا ہاتھ ہے۔

فرم کی رپورٹ 2020 اور 2021 کے درمیان پیش آنے والے واقعات پر مبنی ہے جس میں دو ہزار سے زیادہ شہادتیں پیش کی گئی ہیں۔

رپورٹ میں آٹھ نامعلوم سینیئر بھارتی فوجی اہلکاروں پر کشمیر میں جنگی جرائم اور تشدد میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔

رپورٹ میں بھارت کے زیر انتظام متنازع خطے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا: ’اس بات پر یقین کرنے کی پختہ وجہ موجود ہے کہ بھارتی حکام جموں و کشمیر میں شہریوں کے خلاف جنگی جرائم اور دیگر تشدد کر رہے ہیں۔‘

لندن پولیس کو یہ درخواست اس کے ’عالمی دائرہ اختیار‘ کے تحت دی گئی ہے، جو دنیا میں کہیں بھی انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کا اختیار دیتا ہے۔

لندن میں قائم اس بین الاقوامی قانونی فرم کا خیال ہے کہ یہ پہلی بار ہے کہ کشمیر میں مبینہ جنگی جرائم پر بھارتی حکام کے خلاف بیرون ملک قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

سٹوک وائٹ میں بین الاقوامی قانون کے ڈائریکٹر ہاکان کاموز نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ رپورٹ برطانوی پولیس کو تحقیقات شروع کرنے اور بالآخر ان اعلیٰ بھارتی حکام کو برطانیہ میں داخل ہونے پر گرفتار کرنے پر قائل کرے گی۔ فرم کے مطابق کچھ بھارتی اہلکاروں کے برطانیہ میں مالیاتی اثاثے اور دیگر روابط بھی ہیں۔

کاموز نے کہا: ’ہم برطانیہ کی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ان فراہم کردہ شواہد پر بھارتی حکام کے خلاف تحقیقات کریں اور ان کو گرفتار کرکے اپنا فرض ادا کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔‘

پولیس درخواست گذشتہ ہفتے گرفتاری سے قبل تشدد کا سامنا کرنے والے کشمیری سماجی کارکن محمد احسن اونتو اور علیحدگی پسند جنگجو ضیا مصطفیٰ کے اہل خانہ کی جانب سے دی گئی تھی، جن کا کہنا ہے کہ جیل میں قید مصطفیٰ کو 2021 میں بھارتی حکام نے ماورائے عدالت قتل کیا تھا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری علحیدگی پسند تحریک میں گذشتہ دو دہائیوں کے دوران دسیوں ہزار عام شہری، باغی اور سرکاری فورسز کے اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

کشمیریوں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے طویل عرصے سے بھارتی فوجیوں پر بھارتی تسلط کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف منظم تشدد اور گرفتاریوں کا الزام لگایا ہے۔

2018 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹس کی آزاد بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ ان رپورٹس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ’بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے انہیں دائمی استثنیٰ حاصل ہے۔‘

بھارت کی حکومت نے اس متنازع خطے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے دعوے علیحدگی پسندوں کا پروپیگنڈا ہیں، جس کا مقصد خطے میں بھارتی فوجیوں کو بدنام کرنا ہے۔

برطانوی قانونی فرم کی تحقیقات میں یہ سامنے آیا ہے کہ کرونا وبا کے دوران بھارت کی خلاف ورزیاں مزید بڑھ گئی ہیں۔

رپورٹ میں گذشتہ سال بھارتی حکام کے ہاتھوں خطے کے سب سے ممتاز سماجی کارکن خرم پرویز کی گرفتاری کے بارے میں تفصیلات بھی شامل ہیں۔

42 سالہ پرویز نے جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کے لیے کام کیا۔ اس سوسائٹی نے بھارتی فوجیوں کی جانب سے کیے گئے تشدد اور طاقت کے استعمال کے بارے میں وسیع رپورٹس لکھی ہیں۔

لا فرم کی رپورٹ میں صحافی سجاد گل کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے جنہیں رواں ماہ کے آغاز پر اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب انہوں نے ایک باغی کمانڈر کے قتل پر احتجاج کرنے والے خاندان کے افراد اور ان کے رشتہ داروں کی ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی۔

انسانی حقوق کے وکلا نے ان لوگوں کے لیے انصاف کے حصول کے لیے عالمی دائرہ اختیار کے قانون کو استعمال کیا ہے جو اپنے آبائی ممالک میں یا دی ہیگ میں واقع بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مجرمانہ شکایات درج کرنے سے قاصر تھے۔

گذشتہ ہفتے جرمنی کی ایک عدالت نے بھی شام کے ایک سابق خفیہ پولیس افسر کو ایک دہائی قبل دمشق کے قریب ایک جیل میں ہزاروں قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کا رویہ رکھنے پر انسانیت کے خلاف جرائم کا مجرم قرار دیا تھا۔

کاموز نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ برطانوی پولیس کو بھارتی اہلکاروں کی گرفتاری کی درخواست کے بعد کشمیر میں دیگر قانونی اقدامات کی جانب بھی توجہ مرکوز کی جائے گی۔

انہوں نے کہا: ’ہمیں یقین ہے کہ یہ آخری اقدام نہیں ہو گا شاید اور بھی بہت سی درخواستیں دائر کی جائیں گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا