بھارتی وزیر داخلہ کا دورہ کشمیر: ’ان کی دوستی ایسی تو دشمنی کیسی ہو گی؟'

بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ کہتے ہیں کہ کشمیر میں الیکشن کے بعد ریاستی درجہ بحال کیا جائے گا اور یہ کہ اگر پانچ اگست، 2019 کے بعد خطے میں انٹرنیٹ بند نہ کرتے تو بڑے پیمانے پر کشمیری نوجوان مارے جاتے۔

بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ پانچ اگست، 2019 کے بعد پہلی بار بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے تین روزہ دورے پر آئے  ہیں(تصویر ٹوئٹر/ امیت شاہ)

’۔۔۔۔۔ میں تو کشمیری نوجوانوں سے دوستی کرنے آیا ہوں۔ اب مودی جی (بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی) کے ساتھ جڑیے۔ بھارت سرکار کے ساتھ جڑیے۔ اور کشمیر کو آگے لے جانے کا جو سفر شروع ہوا ہے اس کے ہمراہی بن جایے۔

’مودی جی یہاں امن، استحکام اور ترقی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے میں یہاں کے نوجوانوں سے تعاون مانگنے آیا ہوں۔

’اب ہماری سرکار نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ یوتھ کلب بنائے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ گمراہ کرنے والی طاقتوں کو یہاں کے نوجوان جواب دیں۔ ہم کشمیر کے امن میں کسی کو خلل ڈالنے نہیں دیں گے۔’

یہ الفاظ بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ کے ہیں جو پانچ اگست، 2019 کے بعد پہلی بار بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے تین روزہ دورے پر آئے ہیں۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ امت شاہ کا دورہ کشمیر اس لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے اس متنازع خطے کا انتظام ان ہی کی وزارت دیکھتی ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’کئی برسوں تک ہندو قوم پرست جماعت بھاتیہ جنتا پارٹی کے صدر بنے رہنے والے امت شاہ نے پانچ اگست، 2019 کو نہ صرف کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ کیا بلکہ اس کو وفاق کے زیر انتظام علاقہ بنا کر براہ راست اپنے انتظامی کنٹرول میں لے لیا۔ اب یہاں جو کچھ بھی ہوتا ہے ان کی منظوری سے ہی ہوتا ہے۔‘

امت شاہ نے ہفتے کو سری نگر کے راج بھون میں بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں اور خفیہ اداروں کے عہدے داروں کے ساتھ ایک اجلاس میں کشمیر کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا اور ایک آن لائن تقریب کے ذریعے کشمیر انتظامیہ کی جانب سے حال ہی میں بنائے جانے والے یوتھ کلبوں کے اراکین سے خطاب کیا۔

بھارتی وزیر داخلہ کے دورے سے کئی روز پہلے ہی کشمیر بالخصوص دارالحکومت سری نگر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا تھا اور ہر سڑک پر سکیورٹی فورسز کے اہلکار گاڑیوں کی چیکنگ، موٹر سائیکلوں کی 'بلاجواز' ضبطی اور مسافروں و راہ گیروں کی جامہ تلاشی لینے میں مصروف نظر آ رہے ہیں۔

تاہم کشمیر پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکلوں کی ضبطی اور کچھ علاقوں میں انٹرنیٹ کی معطلی کا وزیر داخلہ کے دورہ کشمیر سے کوئی لینا دینا نہیں بلکہ یہ اقدامات حالیہ ہلاکتوں کے پیش نظر اٹھائے جا رہے ہیں۔

اس دوران کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیاں میں اتوار کی صبح سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) نے شاہد اعجاز نامی ایک نوجوان شہری کو مبینہ طور پر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

کشمیر پولیس نے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ مذکورہ نوجوان کی ہلاکت کا واقعہ عسکریت پسندوں اور سی آر پی ایف کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں پیش آیا۔

کشمیر انتظامیہ نے یوتھ کلب اس نام پر بنائے ہیں کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں کھیل کود کی سرگرمیوں کو فروغ دیں گے لیکن امت شاہ کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ ان یوتھ کلبوں سے وابستہ نوجوان عسکریت پسندی کو ختم کرنے کا کام کریں گے۔

’یہاں اب تک 40 ہزار لوگوں کی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ اس میں دہشت گرد، سکیورٹی اہلکار اور عام شہری یعنی سب شامل ہیں۔

’دہشت گردی اور ترقی کا ایک ساتھ چلنا ناممکن ہے۔ ترقی کی پہلی شرط امن ہے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کا کام یہاں کے یوتھ کلبوں سے وابستہ 45 ہزار نوجوانوں کو کرنا ہے۔‘

’دوستی ایسی تو دشمنی کیسی ہو گی؟‘

سیاسی تجزیہ کار افتخار مسگر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اگر بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ کو کشمیری نوجوانوں سے دوستی کرنے کی چاہت ہوتی تو آج 300 نئے نوجوانوں کو جیلوں میں نہیں ڈالا جاتا اور جو نوجوان پہلے سے ہی جیلوں میں ہیں انہیں رہا کیا جاتا۔

’ان کی دوستی ایسی ہے کہ سڑکوں پر چلنا مشکل بن گیا ہے۔ موٹر سائیکلیں بلاجواز ضبط کی جاتی ہیں۔ یہاں کے لوگوں کو پروموٹ کرنے کی بجائے ڈیموٹ کرنے کی کارروائی جاری ہے۔

’کشمیر ایڈمنسٹریٹیو سروسز کو ختم کیا گیا ہے اور ہر دفتر میں باہر سے لائے جانے والے افسر تعینات کیے جا رہے ہیں۔

’انہوں نے تو کشمیریوں کو روزگار دینے کی بجائے نکالنا شروع کر دیا ہے۔ ہر دن نئے قوانین نافذ کیے جا رہے ہیں جن کے شکار یہاں کے غریب لوگ ہو رہے ہیں۔ کشمیریوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے اور یہاں احساس محرومیت بھی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔‘

افتخار مسگر نے بتایا کہ کشمیر کی تاریخ میں پہلی بے روزگاری کی شرح 60 فیصد کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی ہے۔

’کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا کہنا ہے کہ یہاں اقتصادی حالات اس قدر خراب ہیں کہ اگلے سال مارچ تک 30 سے 40 فیصد تجارتی یونٹ بند ہو سکتے ہیں۔ بے روزگاری کی سطح ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اگر ان کی دوستی ایسی ہے تو دشمنی کیسی ہو گی؟‘

معروف تجزیہ کار اور سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہ قانون کے سابق سربراہ ڈاکٹر شیخ شوکت حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد یہاں کوئی ترقی ہوئی ہے نہ حالات میں کوئی سدھار آیا ہے۔

’جب بھارتی حکومت نے دفعہ 370 کو ختم کیا تھا تو کشمیر کی ترقی کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا تھا۔ لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ ترقی ہوئی ہے نہ حالات میں کوئی سدھار آیا ہے۔‘

ڈاکٹر شیخ شوکت حسین کا کہنا ہے کہ بھارت کو کشمیر میں بھی افغانستان جیسی پالیسی اپنانی چاہیے۔

’کشمیر میں احساس محرومیت کو ایڈریس کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت کی قیادت کشمیر سے متعلق اپنی پالیسی کا اسی طرح از سر نو جائزہ لے جس طرح اس نے افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی میں تبدیلی لائی ہے۔

’کچھ دن پہلے بھارتی وفد نے ماسکو میں طالبان سے بات کی۔ اب اگر وہ طالبان سے بات کر سکتے ہیں، جو ان کے لیے دہشت گرد تھے، تو کشمیری قائدین سے بات کرنے میں کیا قباحت ہے؟

’بھارتی حکومت کو حقائق کا ادراک اور یہاں کے لوگوں کے جذبات کو تسلیم کر کے مسئلہ کشمیر کو ایڈریس کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ہفتے کو وزیر داخلہ امت شاہ کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر کو بحران کے دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے۔

ان کا اپنے سلسلے وار ٹویٹس میں مزید کہنا تھا: ’اعتماد سازی کے اقدامات، جیسے قیدیوں کی رہائی، لوگوں کی ہراسانی کو بند کرنا، اقتصادی بحالی وغیرہ، اٹھانے سے لوگوں کو راحت مل سکتی ہے۔

’لیکن اس کی بجائے وزیر داخلہ کے دورے سے قبل 700 شہریوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بند کر دیا گیا ہے اور کئی قیدیوں کو کشمیر سے باہر کے جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔

’ایسے سخت گیر اقدام سے پہلے سے خراب ماحول مزید ابتر ہو رہا ہے۔ نارملسی کے بلند بانگ دعوے کیے جا رہے ہیں جبکہ زمینی حقائق سے چشم پوشی کی جا رہی ہے۔‘

’کشمیر بھارت کا دل‘

بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ نے 'یوتھ کلبوں' سے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ کشمیر پہلے بھارت کا تاج کہلاتا تھا اور اب یہ بھارت کا دل بھی بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وعدے کے مطابق کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے بعد اس خطے کا ریاستی درجہ بحال کیا جائے گا۔

’ہم جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ انتخابات کرانے ہی کرانے ہیں۔ اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی کو نہیں روکنا ہے۔ اب کشمیر میں کچھ بھی رکنے والا نہیں۔ یہاں حد بندی کے بعد انتخابات ہوں گے اور پھر ریاستی درجہ بحال ہو گا۔ میں نے ملک کے پارلیمان میں یہ وعدہ کیا ہے۔‘

امت شاہ نے دعویٰ کیا کہ پانچ اگست، 2019 کے بعد کشمیر میں عسکریت پسندی، رشوت خوری اور اقربا پروری کا خاتمہ ہو کر امن، ترقی اور استحکام کے ایک نئے دور کی شروعات ہوئی ہے۔

’نوجوانوں کے ساتھ بات چیت کے دوران میرے دماغ میں یہ بات آئی کہ ڈھائی سال پہلے جس کشمیر سے پتھراؤ، دہشت گردی اور تشدد کی خبریں آتی تھیں آج اسی کشمر کے نوجوان ترقی، روزگار اور وظیفے کی بات کر رہے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ کتنا بھاری بدلاؤ آیا ہے۔ اس بدلاؤ کو کوئی نہیں روک سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’کشمیر کو بھارت سرکار سے مدد آتی ہے لیکن ایک دن آئے گا جب کشمیر بھارت کو کنٹریبیوٹ کرے گا۔ یعنی یہ ایک لینے والا نہیں بلکہ دینے والا خطہ بنے گا۔ ایسا کشمیر بنانا ہمارا ہدف اور مقصد ہے۔‘

بھارتی وزیر داخلہ نے پانچ اگست، 2019 کے بعد کشمیر میں نافذ کیے جانے والے کرفیو اور انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کو جواز بخشتے ہوئے کہا کہ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو بڑے پیمانے پر کشمیری نوجوان مارے جاتے۔

’اُس وقت جذبات کو بھڑکانے کی سازش رچائی گئی تھی۔ اس سازش میں کچھ غیر ملکی طاقتیں بھی شامل تھیں۔ اگر ہم کرفیو نافذ نہ کرتے تو نہ جانے کتنے بوڑھے باپ اپنے جوان بیٹوں کا جنازہ اٹھاتے۔

’کرفیو کے نفاذ سے کشمیر کے نوجوان کی زندگیاں ضائع ہونے سے بچ گئیں۔ انٹرنیٹ بند کیا تو کشمیر کا نوجوان بچ گیا ہے۔ آج صورتحال معمول پر ہے تو سب کچھ کھلا ہے۔ آج کوئی کرفیو نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ایک دیرپا امن کے لیے آپ کو تھوڑی تکلیف اٹھانی پڑی ہے۔‘

امت شاہ نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ کشمیر کے امن کو خراب کرنے والوں کے ساتھ ہم سختی سے نمٹیں گے۔

’موجودہ ترقی کی یاترا کو کوئی روک نہیں سکتا۔ یہ ہمارا عزم ہے۔ پڑوس میں ہی پاکستان مقبوضہ کشمیر ہے۔ آپ ایک بار اس اور پاکستان مقبوضہ کشمیر کے درمیان موازنہ کریں۔ آپ کو غریبی اور اندھیرے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا۔

’وہاں آج بھی گھروں میں لکڑیاں اور ٹہنیاں جلا کر کھانا تیار کیا جاتا ہے۔ وہاں صرف دھواں ہی دھواں ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا