امریکی انخلا کے دوران کابل میں کیے گئے ڈرون حملے کی خفیہ فوٹیج جاری

پہلی بار عوامی طور پر جاری کی گئی ان ویڈیوز میں تقریباً 25 منٹ کی فوٹیج شامل ہے جس میں ایک رہائشی عمارت کے صحن میں کھڑی سویلین کار پر میزائل لگنے سے پہلے، حملے کے دوران اور بعد کے مناظر ہیں۔

29 اگست 2021 کو کابل میں امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بننے والی کار۔ پینٹاگون نے واقعے کی خفیہ فوٹیج ڈی کلاسیفائی کی ہے (اے ایف پی)

امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) نے گذشتہ برس اگست میں افغانستان سے امریکی انخلا کے آخری دنوں میں کابل میں کیے گئے اس ڈرون حملے کی ویڈیو فوٹیج ڈی کلاسیفائی کرتے ہوئے عوامی طور پر جاری کردی ہے، جس میں بچوں سمیت 10 عام شہری مارے گئے تھے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے یہ فوٹیج امریکی سینٹرل کمانڈ کے خلاف فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت مقدمے کے ذریعے حاصل کرنے کے بعد اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کی ہے۔

یہ ڈرون حملہ 29 اگست کو افغانستان میں 20 سالہ جنگ کے خاتمے کے وقت کیا گیا تھا، جس کا ابتدا میں پینٹاگون نے دفاع کیا لیکن بعد میں اسے ایک ’سنگین غلطی‘ تسلیم کر لیا تھا۔

پہلی بار عوامی طور پر جاری کی گئی ان ویڈیوز میں دو MQ-9 ریپر ڈرونز کی بنائی گئی تقریباً 25 منٹ کی فوٹیج شامل ہے جس میں ایک رہائشی عمارت کے صحن میں کھڑی سویلین کار پر میزائل لگنے سے پہلے، حملے کے دوران اور بعد کے مناظر ہیں۔

غیر واضح فوٹیج میں لوگوں کو حملے کے مقام پر یا اس کے قریب چلتے پھرتے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

امریکی فوج کا کہنا ہے کہ یہ حملہ داعش سے وابستہ ایک شدت پسند کو ذہن میں رکھ کر کیا گیا تھا، جس کے بارے میں خیال تھا کہ وہ کابل ہوائی اڈے کے قریب فوری طور پر بم دھماکہ کر سکتا تھا، جہاں سے انخلا کا عمل ابھی جاری تھا۔

اس ڈرون حملے سے تین روز قبل ہوائی اڈے پر ایک خودکش بم حملے میں 13 امریکی فوجی اور 160 سے زائد افغان شہری ہلاک ہو گئے تھے۔

بعد ازاں 29 اگست کے ڈرون حملے کی اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے امریکی سینٹرل کمانڈ نے کہا تھا کہ کار چلانے والے شخص کا داعش سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

یہ شخص ضمیری احمدی تھا جو امریکی امدادی تنظیم نیوٹریشن اینڈ ایجوکیشن انٹرنیشنل کے لیے کام کرتا تھا۔

اس سے قبل امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے حکام نے کہا تھا کہ 29 اگست کو کابل میں ہونے والے ڈرون حملے میں ملوث کسی امریکی فوجی کو تادیبی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اعلیٰ جرنیلوں کو حملے کی رپورٹ کا جائزہ لینے کا کہا تھا، جنہوں نے جائزے کے بعد حملے میں ملوث فوجیوں کے خلاف جوابدہی کی کوئی سفارش پیش نہیں کی۔

جان کربی نے ایک پریس بریفنگ میں بتایا تھا کہ سیکرٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے ان سفارشات کو منظور کرلیا ہے اور مزید احتسابی اقدامات کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جان کربی کا کہنا تھا: ’ذاتی احتساب کے لیے یہ کیس اتنا مضبوط نہیں تھا۔‘

پینٹاگون نے امریکی فضائیہ کے لیفٹیننٹ جنرل سیمی سیڈ کو کابل میں سفید ٹویوٹا کرولا پر ہونے والے ڈرون حملے کی تحقیقات کا فریضہ سونپا تھا، جس کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے سات بچوں سمیت 10افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

حملے کا نشانہ بننے والی گاڑی کے 37 سالہ ڈرائیور ضمیری احمدی کو اس وقت نشانہ بنایا گیا تھا، جب کار گھر کے گیراج میں داخل ہو رہی تھی اور بچے ضمیری کو خوش آمدید کہنے کے لیے ان کی جانب لپکے تھے۔

مذکورہ کار اور اس کے ممکنہ خطرے کے بارے میں انٹیلی جنس رپورٹ اس وقت سامنے آئی جب اگست میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور طالبان کے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے دوران امریکہ اپنے شہریوں اور اتحادیوں کو ملک سے نکالنے کی کوشش کر رہا تھا اور اسی انخلا کے دوران داعش کے ایک خودکش بمبار نے کابل کے ہوائی اڈے کے گیٹ پر حملہ کیا تھا۔

جنرل سیمی سیڈ کی جانب سے کی گئی آزادانہ تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ حملے کے دوران مواصلاتی نظام میں خلل اور بمباری کے ہدف کی شناخت اور تصدیق کے عمل میں خرابی کا علم ہوا ہے۔

انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’غلطی سے ہونے والا یہ حملہ‘ عام شہریوں کی ہلاکتوں کو روکنے کے محتاط اقدامات کے باوجود پیش آیا۔

لیفٹیننٹ جنرل سیڈ نے اس وقت کہا تھا: ’میں نے محسوس کیا کہ دستیاب معلومات اور تجزیے کے پیش نظر وہ غلط نتیجے پر پہنچے تھے لیکن یہ غیر معقول نہیں تھا۔ یہ صرف غلط ثابت ہوا۔‘

لیفٹیننٹ جنرل سیڈ امریکی فضائیہ کے انسپکٹر جنرل ہیں اور انہیں اس لیے بھی آزاد خیال کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا افغانستان کے آپریشنز سے کوئی براہ راست تعلق نہیں رہا۔

ان کی رپورٹ کے بعد سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میک کینزی اور سپیشل آپریشنز کمانڈ کے سربراہ جنرل رچرڈ کلارک سے کہا تھا کہ وہ جنرل سیمی سیڈ کے نتائج کا جائزہ لیں اور سفارشات کے ساتھ ان کے پاس واپس آئیں۔ دونوں کمانڈروں نے سیمی سیڈ کے نتائج سے اتفاق کیا اور انہوں نے کسی تادیبی کارروائی کی سفارش نہیں کی۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جان کربی نے کہا تھا کہ لائیڈ آسٹن نے جرنیلوں کی جانب سے تادیبی کارروائی کی ضرورت نہ ہونے کی سفارشات سے اتفاق کرتے ہوئے ان کی اس تجویز کو قبول کیا کہ آئندہ آپریشنز میں مواصلات اور رابطوں میں بہتری لائی جائے۔

انہوں نے مزید کہا: ’ان کی سفارشات میں سے کوئی بھی خاص طور پر احتساب سے متعلق نہیں ہے، لہذا میں یہ توقع نہیں کرتا کہ 29 اگست کے فضائی حملے کے حوالے سے ذاتی احتساب کے مسائل ہوں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا