سندھ اسمبلی کے باہر دھرنے میں کھانوں کا میلہ

سندھ حکومت کے نئے بلدیاتی نظام کے خلاف جماعت اسلامی کے دھرنے میں دو روزہ کھانوں کا میلہ۔

سندھ حکومت کے نئے بلدیاتی نظام کے خلاف جماعت اسلامی کے دھرنے کو 23 روز مکمل ہو چکے ہیں۔

جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کے مطابق ان کا دھرنا ایک تحریک بن چکا ہے اور دھرنے میں ہونے والا فیملی فوڈ میلہ اس کی ایک نشانی ہے۔

کراچی کے علاقے صدر میں واقع سندھ اسمبلی کی عمارت کے باہر جماعت اسلامی نے اپنے موجودہ دھرنے میں دو روزہ فیملی فوڈ میلہ کا انعقاد کیا۔

میلے میں 25 کھانے پینے کے سٹال، موبائل ویکسینیشن سینٹر اور بچوں کی سیر و تفریح کے لیے جمپنگ کاسل وغیرہ موجود ہیں۔

نیز شرکا کے لیے کراٹے اور باکسنگ شوز کا بھی انعقاد کیا گیا ہے۔

حافظ نعیم الرحمن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سوشل گیدرنگ کے ساتھ یہ مظاہرین کا دھرنا بھی ہے، یہ آواز ہے کراچی کی۔

’یہ دھرنا ایک مرکز ہے جس کے ساتھ ساتھ شہر کے اور کئی مقامات پر ہماری کارنر میٹنگز ہورہی ہیں، احتجاج اور جدوجہد اب پورے شہر میں ہے۔‘

دھرنے میں ہونے والے فیملی فوڈ میلے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’ہم یہاں بہت ہی کم پیسوں میں کھانا دے رہے ہیں اور کھانے کی بہت ورائٹی ہے۔

’شرکا اسے انجوائے کر رہے ہیں اور اس میں اپنا حصہ بھی ڈال رہے ہیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ میلہ صرف شرکا کے لیے نہیں بلکہ کراچی والوں کے لیے ہے۔

’اصل میں پرامن احتجاج کے ذریعے ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ کراچی کے بچوں کی قسمت نہیں کہ انہیں دھکے ملیں۔

’ہماری ماؤں بہنوں کو بسوں اور چنگچیوں میں دھکے ملیں، ہماری خواتین اور دیگر عوام کو ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ کا سسٹم چاہیے۔

’ہمارے عوام کو معیاری تعلیم اور صحت کی سہولیات چاہیے۔ اب ہمارا احتجاج ایک بڑے پیمانے پر پھیل چکا ہے۔‘

سندھ کا نیا بلدیاتی نظام کیا ہے؟

سندھ حکومت نے حال ہی میں صوبائی بلدیاتی نظام سے متعلق 2013 کے قانون میں ترامیم کرکے اسے اسمبلی سے پاس کروایا ہے۔

ان ترامیم کے تحت کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن یا بلدیہ عظمیٰ کراچی سے شہر کے بڑے ہسپتالوں بشمول سوبھراج ہسپتال، عباسی شہید ہسپتال، سرفراز رفیقی ہسپتال، لیپروسی سینٹر اور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کا انتظام واپس لے کر صوبائی حکومت کے زیر انتظام دینے کے ساتھ، پیدائش اور اموات کے سرٹیفیکیٹس جاری کرنے اور انفیکشس ڈزیز سمیت تعلیم اور صحت کے شعبوں کا اختیار لے کر انہیں صوبائی حکومت کے زیر انتظام کر دیا گیا ہے۔

سندھ کے نئے بلدیاتی نظام کے تحت اب صوبے کے بلدیاتی نظام میں یونین کمیٹیوں کے وائس چیئرمین ٹاؤن میونسپل کونسل کے رکن ہوں گے، جب کہ ٹاؤن میونسپل کونسل کے ارکان میں سے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب ہوگا۔

ان ٹاؤن میونسپل کونسل کے اراکین کی مدت چار سال ہوگی اور میئر کا انتخاب اوپن بیلٹ کے بجائے خفیہ ووٹنگ سے کیا جائے گا۔

ترمیمی بل کے مطابق 50 لاکھ یا اس سے زائد آبادی والے شہروں میں ہی میٹروپولیٹن کارپوریشن قائم کی جائیں گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلدیاتی حکومت ترمیمی بل 2021 کے مطابق صوبائی دارالحکومت کراچی سمیت صوبے کے بڑے شہروں حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، میرپور خاص، بے نظیر آباد میں بھی کارپوریشنز لائی جا رہی ہیں اور ان شہروں میں تحصیل کی بجائے ٹاؤن سسٹم اور یونین کونسل کی جگہ یونین کمیٹیاں ہوں گی۔

ان ترامیم کے بعد سندھ کی حزب مخالف جماعتوں کی جانب سے ان کی مخالفت کی جا رہی ہے۔

پاک سر زمین پارٹی نے ان ترامیم کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے جب کہ ایم کیو ایم نے بل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے 11 دسمبر کو آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائی تھی۔

پی ٹی آئی کی جانب سے بھی بل کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی بھی بلدیاتی ترمیمی بل کے خلاف 12 دسمبر سے ’کراچی بچاؤ‘ مارچ کے تحت احتجاج کر رہی ہے اور سندھ اسمبلی کے باہر دھرنا دے رکھا ہے جس کے بعد سندھ حکومت نے اعلان کیا کہ اپوزیشن کے مطالبے پر بل کی کچھ ترامیم کو واپس لیا جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان