خیبر پختونخواہ: صحافیوں کے لیے فلاحی فنڈ کی منظوری

رولز کے مطابق 60 سال کی عمر والے اور 30 سال تجربہ رکھنے والے صحافی کو ماہانہ 10 ہزار وظیفہ جبکہ نوکری سے نکالے گئے بے روزگار صحافی کو دو ماہ تک 10 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جائے گا۔

خیبر پختونخوا کی صوبائی کابینہ نے صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے  ’جرنلسٹس انڈؤمنٹ فنڈ رولز‘ کی منظوری دی ہے جس کے تحت دیگر معاضوں کے علاوہ  دہشت گردی کی وجہ سے جان سے جانے والے صحافی کے لواحقین کے لیے 10 لاکھ روپے اور کسی بھی وجہ سے معذور ہونے والے صحافی کے لیے دو لاکھ روپے مالی امداد دی جائے گی۔

کابینہ اجلاس گزشتہ روز پشاور میں منعقد ہوا جس میں ان رولز کی منظوری دی گئی ہے  جس کو صوبائی اسمبلی کے آئندہ آنے والے اجلاس میں پیش کر کے منظور کیا جائے گا۔

منظور شدہ رولز کے تحت صحافیوں کے بچوں کی شادی کے اخراجات کی مد میں دو لاکھ روپے گرانٹ دی جائے گی اور یہ گرانٹ صرف ایک مرتبہ ملے گی۔

اسی طرح رولز کے مطابق 60 سال کی عمر والے اور 30 سال تجربہ رکھنے والے صحافی کو ماہانہ 10 ہزار وظیفہ جبکہ نوکری سے نکالے گئے بے روزگار صحافی کو دو ماہ تک 10 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جائے گا۔

اس کے علاوہ رولز کے مطابق صحافی اور اس کے خاندان کے کسی فرد کی فوتگی کی صورت میں  تدفین کے اخراجات کے طور پر 50 ہزار روپے دیے جائیں گے۔

گرانٹ لینے کے لیے اہلیت کیا ہوگی؟

رولز کے مطابق جان دینے والے یا کسی وجہ سے بھی معذور ہونے والے افراد کی اہلیت کا پتہ لگانا تو آسان ہوگا یعنی معذور افراد کے لیے نادرا کا معذور افراد کے لیے خصوصی شناختی کارڈ مگر بزرگ صحافیوں اور بے روزگار صحافیوں کے وظیفے کے لیے کیا طریقہ کار ہوگا، اسی حوالے سے صوبائی مشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس کے لیے 60 سال کا ہونا لازمی ہے۔

انہوں نے بتایا: ’جو بھی صحافی 60 سال کی عمر تک پہنچ جائے اور انہوں نے فیلڈ میں تیس سال گزارے ہوں تو ان کو ماہانہ 10 ہزار روپے وظیفہ دیا جائے گا۔ یہ رولز صوبائی اسمبلی میں پیش کیے جائیں گے اور اس میں ترمیم کی گنجائش بھی موجود ہے۔‘

 سیف علی خان  نے بتایا: ’ایک بات اس میں ضروری ہے کہ اس میں ریٹائرڈ صحافی اور اداروں میں موجودہ وقت میں کام کرنے والے صحافی بھی شامل ہوں کیونکہ بعض شعبے جیسا کہ صحافت اور وکیل کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتے۔‘

رولز میں صحافیوں کے بچوں کی شادی کے لیے گرانٹ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس انڈؤمنٹ فنڈ کے علاوہ پشاور پریس کلب پر ایک صحافی کو ان کی شادی کے لیے 20 ہزار روپے شروع سے دیے جاتے ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف حکومت نے صوبے میں ’جرنلسٹ ویلفئیر انڈومنٹ فنڈ ایکٹ‘ کی منظوری 2014 میں دی تھی اور اسمبلی سے پاس بھی ہوا تھا لیکن ابھی تک اس کے لیے باقاعدہ رولز نہیں بنائے گئے تھے۔

اس ایکٹ ( جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) میں لکھا گیا ہے کہ اس فنڈ کا مقصد صحافیوں کی فلاح و بہبود ہوگی۔ قانون کے مطابق جان دینے والے صحافیوں کے لیے شہدا پیکج ہو گا۔ شادی شدہ کے لیے فنڈ ان کی اہلیہ جبکہ غیر شادی شدہ صحافی کے والدین کو دیا جائے گا۔

اسی طرح قانونی مسودے کے مطابق اس فنڈ کے لیے حکومت ابتدائی طور پر پانچ کروڑ روپے مختص کرے گی جبکہ بعد میں آئندہ سالوں میں مختلف خیراتی اداروں، غیر سرکاری اداروں سے بھی عطیات قبول کیے جائیں گے۔

مسودے کے مطابق یہ فنڈ کسی بینک میں رکھا جائے گا اور ڈائریکٹر جنرل محکمہ اطلاعات خیبر پختونخوا اس فنڈ کے کنٹرولر ہوں گے اور وہ ہی فنڈ کی تفصیلات، آڈٹ اور درخواستوں کی جانچ پڑتال کے ذمہ دار ہوں گے۔

ایکٹ کے مطابق اس فنڈ کے لیے ایک کمیٹی بنائے جائے گی جس کا چئیرمین صوبائی وزیر اطلاعات ہوں گے جبکہ وائس چیئرمین سیکرٹری انفارمیشن ہوں گے۔ کمیٹی کے دیگر اراکین میں ڈائریکٹر جنرل انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ، وزارت خزانہ کا نمائندہ، تین پریس کلبز کے صدور( دو سال کے لیے)  شامل ہوں گے۔

درخواست جمع کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے ایکٹ میں لکھا گیا ہے کہ کوئی بھی ضروت مند صحافی یا ان کے خاندان والے پریس کلب کے صدر یا جنرل سیکرٹری کے ذریعے درخواست جمع کرائیں گے جس کی جانچ پڑتال کمیٹی کی ذمہ داری ہوگی۔

کمیٹی ایکٹ کے مطابق یہ دیکھے گی کہ جس مقصد کے لیے صحافی یا ان کے خاندان والے معاشی مدد مانگ رہے ہیں، وہ تصدیق شدہ ہے یا نہیں جبکہ شہدا پیکج کے  لینے والے درخواستوں کی بھی تصدیق کی جائے گی۔اسی طرح میڈیکل کلیم کی درخواستیں صوبائی محکمہ اطلاعات محکمہ صحت کو تصدیق کے لیے بھیجے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صحافی کیا کہتے ہیں؟

شاہد خان پشاور پریس کلب کے ممبر ہیں اور پشاور میں نیو ٹی وی سے بطور رپورٹر  سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات خوش آئند ہے تاہم اس مد میں پریس کلب اور صحافتی یونیز کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

شاہد  نے بتایا،’ ساری عمر شاید حکومت صحافیوں کے لیے گرانٹ کی مںظوری  نہ دے سکے، اس لیے صحافیوں کو خود بھی اس کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ حکومت کو بھی اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کرنے چاہیے تاکہ صحافیوں کو کم از کم ماہانہ اجرت مل سکے۔‘

فدا خٹک پشاور پریس کلب کے ممبر اور خیبر یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر ہیں۔ انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انڈؤمنٹ فنڈ میں بے روزگار صحافیوں کو وظیفہ دینے کی مںظوری اچھی بات ہے تاہم یہ اس مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اب صحافت میں بہت جدت آگئی ہے اور اب نت نئے ایجادات اور نئے ٹولز استعمال ہورہے ہیں تو صحافیوں کو دور جدید کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنا پڑے گا۔

فدا خٹک نے بتایا،’ اگر صحافی دور جدید کے میڈیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوں گے تو ادارے ان کو نکالیں گے اور مزید صحافی بے روزگار ہوں گے۔ میڈیا کے اداروں کو اب اپنے کارکنوں کو نئے ہنر سکھانے ہوں گے تاکہ جدید دور کی صحافت میں وہ کام کر سکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان