مذاکرات کامیاب: ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ کو کھول دیا گیا

احتجاج کے باعث کراچی بندرگاہ کا داخلی چینل 30 گھنٹوں سے زائد وقت تک بند رہا اور بندرگاہ کے تمام آپریشنز مکمل طور پر معطل رہے، تاہم مذاکرات کی کامیابی کے بعد احتجاج کرنے والے ماہی گیروں نے چینل سے کشتیاں ہٹا دیں۔

سندھ کے ماہی گیروں کا بلوچستان حکومت کی جانب سے فشنگ ٹریلرز پر پابندی عائد کیے جانے کے خلاف جاری احتجاج حکام اور ماہی گیروں کے درمیان بدھ کو رات دیر گئے ہونے والے مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد ختم کردیا گیا ہے۔

احتجاج کے باعث پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ، کراچی بندرگاہ کا داخلی چینل 30 گھنٹوں سے زائد وقت تک بند رہا اور بندرگاہ کے تمام آپریشنز مکمل طور پر معطل رہے، تاہم مذاکرات کی کامیابی کے بعد احتجاج کرنے والے ماہی گیروں نے چینل سے کشتیاں ہٹا دیں۔

کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کی جانب سے رات دیر گئے جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ مذاکرات کی کامیابی کے بعد چینل کھلنے سے بندرگاہ کی سرگرمیاں بحال کردی گئیں۔ 

واضح رہے کہ بلوچستان حکومت کی جانب سے حالیہ دنوں میں سندھ کے فشنگ ٹریلرز پر 12 نائیٹکل میل کے اندر آنے پر پابندی عائد کردی تھی، جس پر احتجاج کرتے ہوئے سندھ کے ماہی گیروں نے منگل کی دوپہر کو کراچی بندرگاہ کے داخلی چینل کو کشتیاں لگا کر بند کردیا تھا۔

ماہی گیروں کے احتجاج کے باعث پاکستان کی سب بڑی بندرگاہ پر بیرون ملک سے پاکستان سامان لانے والا کوئی بھی بحری جہاز بندرگاہ تک نہیں پہنچ سکا۔ پیر کی شام مختلف ممالک سے سامان لے کر بندرگاہ پر آنے والے 10 بحری جہاز بھی احتجاج کے باعث بندرگاہ سے باہر نہیں نکل سکے۔ 

کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ترجمان شارق امین فاروقی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ کراچی بندر گاہ کے داخلی چینل کو ماہی گیروں نے کشتیاں کھڑی کرکے مکمل طور پر بند کردیا تھا۔

شارق امین فاروقی سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ کو 24 گھنٹوں سے زائد وقت تک بند ہونے کے بعد کتنا نقصان ہوا ہے، اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ابھی تک کوئی اندازہ نہیں ہے کہ اس احتجاج سے کتنا نقصان ہوا ہے۔  

واضح رہے کہ بلوچستان کے ماہی گیروں کے مطالبے پر حکومت بلوچستان نے دسمبر 2021 میں صوبے کے حدود میں تمام غیرقانونی فشنگ ٹرالرز پر پابندی عائد کرتے ہوئے سندھ حکومت اور میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی سے درخواست کی تھی کہ وہ سندھ کے ماہی گیروں کو بلوچستان کے پانیوں میں داخل ہونے سے روکیں۔  

سندھ ٹرالر اونر اینڈ فشرمین ایسوسی ایشن (سٹوفا) کے صدر حبیب اللہ نیازی کے مطابق بلوچستان حکومت کی جانب سے پابندی کے باوجود زیادہ سختی نہیں تھی اورسندھ کے ماہی گیر آسانی سے بلوچستان کے پانیوں میں جاکر مچھلی کا شکار کرلیتے تھے۔  

 آل ماہی گیر ایسوسی ایشن کے صدر محمد سعید کے مطابق کچھ عرصہ قبل بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں ’حق دو تحریک‘ کی جانب سے احتجاج کیا گیا تو دیگر کئی مطالبات کے ساتھ سب سے بڑا مطالبہ فشنگ ٹرالرز پر پابندی عائد کرنا تھا۔ جب حکومت بلوچستان نے حق دو تحریک بلوچستان کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن کا احتجاج ختم کرانے کے لیے تمام مطالبات مانے تو اس کے بعد سندھ کے فشنگ ٹرالرز پر مکمل پابندی عائد کردی گئی۔  

محمد سعید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا: ’اس کے بعد بلوچستان حکومت نے انتہائی سختی کردی۔ چند روز قبل سندھ کی چھ فنشنگ ٹرالرز کو بلوچستان حکومت نے تحویل میں لیا اور ان ٹرالرز پر کام کرنے والے 30 ماہی گیروں کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا اور ہر ایک ماہی گیر پر 30 لاکھ روپے جرمانہ عائد کرنے کے علاوہ تشدد کا الزام عائد کیا۔‘

بلوچستان حکومت کا موقف جاننے کے لیے ترجمان بلوچستان حکومت سردار عبدالرحمٰن کھیتران سے بار بار رابطہ کیا گیا اور ان کے واٹس ایپ پر پیغام چھوڑا گیا، مگر ان کی جانب سے اس خبر کے فائل ہونے تک کوئی جواب نہیں آیا۔  

محمد سعید کے مطابق کشتی کے کپتان بہت برہم ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات نہیں مانے جاتے وہ کسی صورت میں احتجاج ختم نہیں کریں گے۔ ’بدھ کی دوپہر کو پاکستان بحریہ کا ایک بحری جنگی جہاز کراچی بندرگاہ آنا چاہتا تھا تو بڑی مشکل سے منت کرکے ان کو منایا کہ جہاز کو گزرنے دیا جائے تو تھوڑی دیر کے لیے راستہ دیا اور پھر دوبارہ کشتیوں سے بندرگاہ کے مرکزی چینل کو مکمل طور پر بند کردیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد سعید کے مطابق پاکستان کے پانیوں سے ہر سال 80 کروڑ امریکی ڈالر کی مچھلی، جھینگے، کیکڑے اور دیگر سی فوڈ حاصل کرکے بیرون ممالک بھیجا جاتا ہے۔ جس کا 85 فیصد بلوچستان کے پانیوں سے ملتا ہے۔ ’بلوچستان کے پاس سندھ کی نسبت زیادہ سمندری حدود ہیں۔ سندھ کے پاس 300 کلومیٹر کے قریب  جب کہ بلوچستان کے پاس 700 کلومیٹر سے زائد سمندر ہے۔‘

’سندھ کی حدود میں مچھلی کی تلاش میں بھارتی سرحد تک جانا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی بھارتی بحریہ ماہی گیروں کو گرفتار کرلیتی ہے۔ اتنی دور جانے کے باجود مچھلی نہیں ملتی۔ اگر بلوچستان حکومت نے پابندی نہیں اٹھائی تو ماہی گیر فاقہ کشی پر مجبور ہوجائیں گے۔‘ 

حبیب اللہ نیازی کے مطابق قیام پاکستان کے بعد ایوب خان کے دور حکومت میں بلوچستان میں ساحل سے تین کلومیٹر سے باہر فشنگ ٹرالر کو شکار کی اجازت تھی۔ جو بعد میں چھ کلومیٹر، آٹھ اور اب 12 کلومیٹر تک کردی گئی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے حبیب اللہ نیازی نے بتایا: ’ساحل سے 12 کلومیٹر دور والے سمندر کو ماہی گیر کھڈا کہتے ہیں۔ جہاں زمیں بہت نیچے ہوتی ہے اور وہاں مچھلی یا دیگر سی فوڈ کا ملنا تقریباً ناممکن ہے۔‘ 

’سمندر میں مچھلی کے شکار کے مختلف طریقے ہیں۔ ایک ہُک سے شکار، دوسرا گریلیٹر جال سے بھی شکار ہوتا ہے۔ اس جال کا سائز بڑا ہوتا ہے اور صرف بڑی سائز کی مچھلی پکڑی جاتی ہے۔ جب کہ گُجو اور بلو نامے جال ململ کے کپڑے کی طرح انتہائی باریک ہوتے ہیں جو ایک مچھردانی کے طرح ہوتے ہیں۔ ان جالوں کے استعمال پر پابندی ہے۔‘  

’بلوچستان حکومت سمجھتی ہے فشنگ ٹرالر سے مچھلی کی نسل کُشی ہورہی ہے۔ مگر نسل کُشی صرف کریک میں موجود مینگرو والے علاقے میں ہوتی ہے۔ سندھ میں دریائے سندھ کے 17 کریکس ہیں۔ جب کہ پوری بلوچستان کے ساحل پر صرف تین کریکس ہیں۔‘  

پاکستان کی سمندری حدود کچھ عرصہ قبل تک ساحل سے 200 ناٹیکل میل تک تھی۔ مگر کچھ سال پہلے پاکستان  کے مطالبے پر اقوام متحدہ کے کمیشن برائے کانٹینینٹل شیلف حدود نے انہیں بڑھا کر 350 ناٹیکل میل کر دیا تھا۔ ساحل کے نزدیکی علاقے میں گزشتہ 60 سالوں سے فشنگ ٹرالر کام کرتے ہیں۔  

فشنگ ٹرالر کیا ہوتے ہیں؟

فشنگ ٹرالر مچھلی کا شکار کرنے والے بڑے سائز کے طاقتور انجن والے بحری جہاز ہوتے ہیں اور ان بحری جہازوں میں جال کو سمندر میں پھینکنے اور مچھلی کے پھنس جانے کے بعد باہر کھینچنے کے لیے مشین کا استعمال ہوتا ہے۔ اور یہ ساحل سے بہت دور تک سفر کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
یہ ٹرالر 10 سے 15 دن مسلسل مچھلی کا شکار کرنے اور ان کو سٹور کرنے کی بھی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ لکڑی کے بنے چھوٹے سائز کے بھی ٹرالر ہوتے ہیں۔  

حبیب اللہ نیازی کے مطابق اس وقت سندھ اور بلوچستان میں فنشنگ ٹرالر سمیت چھوٹی بڑی 26 ہزار کشتیاں رجسٹرڈ ہیں۔ جن میں 15، 16 ہزار کشتیاں فعال ہیں۔ یہ ٹرالر اور کشتیاں کراچی کی بندرگاہوں، گڈانی اور پسنی کے ساحل پر لنگرانداز ہوتی ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان