پنجاب اسمبلی میں چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بننے کے لیے 186 اراکین کی حمایت درکار ہو گی۔
وفاق میں حزب اختلاف کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے درکار اراکین قومی اسمبلی کی تعداد متحدہ قومی موومنٹ کے اعلان کے بعد پوری ہو چکی ہے جس کے باعث مسلم لیگ ق کے پرویز الہٰی کی وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کو کوششوں اور امیدوں کوشدید دھچکا پہنچا ہے۔
اب تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں چوہدری پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے امکانات انتہائی موہوم ہو جائیں گے۔
اگرپاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے اراکین کو ملا کر دیکھا جائے تو پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں مگر پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین گروپ اور علیم خان گروپ پرویز الٰہی کے وزیر اعلٰی بننے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
ان دونوں گروپس کے دعووں کے مطابق انہیں کم از کم 25 سے زائد اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ ان دونوں گروپس کو اس وقت انتہائی اہمیت حاصل ہو گئی ہے کیونکہ یہ دونوں گروپ پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی یا حزب اختلاف کی جانب سے نامزد امیدوار کو صوبے کا وزیر اعلٰی بنوا سکتے ہیں۔
اگرجہانگیر ترین اور علیم خان گروپ کے اراکین ووٹنگ میں حصہ نہ بھی لیں تب بھی چوہدری پرویز الٰہی کا وزیر اعلٰی بننا ناممکن ہو جاتا ہے۔
وفاق میں لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال کے پیش نظر پنجاب کا سایسی منظر نامہ کیا ہوگا اس حوالے سے سینئیر تجزیہ کار محمل سرفراز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’وفاق میں بدلتی سیاسی صورتحال کا اثر براہ راست پنجاب پر پڑے گا۔ متحدہ قومی موومنٹ بھی حزب اختلاف کے ساتھ ہو گئی ہے اور اس سے ایسا ہی لگ رہا ہے کہ نمبرز کے مطابق وزیر اعظم اپنی اکثریت کھو چکے ہیں۔‘
محمل کہتی ہیں اب تک کی خبروں کے مطابق علیم خان گروپ نے بھی کہا ہے کہ وہ چوہدری پرویز الٰہی کو بطور وزیر اعلیٰ پنجاب ووٹ نہیں دیں گے اور جہانگیر ترین گروپ سے بھی یہی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وفاق میں حکومت چلی جاتی ہے جسے بچانے کے لیے چوہدری پرویز الٰہی کو وزارت اعلٰی کی پیش کش کی گئی تھی کہ ایک سیٹلمنٹ ہو جائے اور اتحادی بھی ساتھ رہیں اور اس طرح حکومت بچ جائے۔
کیونکہ منحرف اراکین کو واپس بلانے کی کوششیں کی جارہی تھیں جو لگ نہیں رہا تھا کہ وہ آئیں گے۔ اسی وجہ سے چوہدری پرویز الٰہی کو پیش کش کی۔ محمل کے مطابق ’جب چوہدری پرویز الٰہی کو وزارت اعلٰی کی پیش کش کی گئی تو حکومت کے اندر کے ہی کچھ لوگوں نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا تھا کہ انہیں وزیر اعلیٰ بنانے سے بہتر ہے کہ ہم حکومت سے استعفیٰ دے دیں۔ ہم انہیں یہ پیش کش کر ہی کیوں رہے ہیں؟ پنجاب میں ہماری حکومت ہے تو ہم ایک اتحادی کو پلیٹ میں رکھ کر وزارت اعلٰی کی سیٹ کیوں دے رہے ہیں جب کہ ان کی سیٹیں بھی کم ہیں؟‘
’دوسرا وہ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ پاکستان تحریک انصاف میں پہلے ہی گروہ بندی ہے جیسے ایک علیم خان گروپ ہے، جہانگیر ترین گروپ ہے، ایک چھینہ گروپ ہے، ان کے علاوہ اور بھی لوگ تھے جنہیں پارٹی سے مسائل تھے۔ جس طرح وفاق میں منحرف اراکین ہیں اسی طرح پنجاب کے اندر بھی منحرف اراکین ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس لیے وزیر اعظم کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ نہ دیں کیونکہ اس طرح پی ٹی آئی کی اپنی طاقت کم ہو جائے گی۔‘
محمل کہتی ہیں کہ وزیر اعظم کو یہ تمام تحفظات بتائے گئے لیکن لگ یہ رہا تھا کہ وفاق میں حکومت کو بچانے کے لیے پنجاب اور عثمان بزدار کی قربانی دینے کو حکومت تیار تھی لیکن اس قربانی کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ اب تک کی خبروں کے مطابق تو یہی ہے کہ وزیر اعظم کے اتحادی ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں اور اس وقت کی نمبر گیم کے مطابق حزب اختلاف کا پلڑا بھاری ہے۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں پنجاب کی کرسی کون سمبھال سکتا ہے؟
محمل سرفراز کے مطابق ’وفاق میں حزب اختلاف نے وزیر اعظم کے لیے شہباز شریف کا نام دیا ہے۔ اس صورت میں کہ اگر عمران خان وزیر اعظم نہیں رہتے۔ جہاں تک پنجاب کی بات ہے تو یہاں ابھی ہم نے ایک نام نہیں بلکہ کئی نام سنے ہیں۔ کبھی علیم خان کبھی حمزہ شہباز اور بھی چند نام لیے جارہے ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ حزب اختلاف نے کہا کہ پرویز الٰہی کو وہ وزیر اعلیٰ نہیں بننے دیں گے اور اگلا وزیر اعلٰی حزب اختلاف منتخب کرے گی۔ یہ مشکل کام لگ رہا ہے کہ کیا چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ منتخب ہو بھی سکتے ہیں یا نہیں۔‘
محمل کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ویسے تو چوہدری پرویز الٰہی کی نیک نیتی تو پنجاب اسمبلی میں بہت ہے۔ انہوں نے سپیکر کے انتخاب میں بھی حکومتی اراکین سے بھی زیادہ ووٹ لیے لیکن اس وقت جو صورتحال ہے وہ وفاق سے متعلق ہے اور وہاں حزب اختلاف کا پلڑا بہت زیادہ بھاری ہے اور نمبر گیم کو دیکھتے ہوئے لگ یہی رہا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کے لیے وزیر اعلٰی بننا بہت مشکل اور چیلنجنگ ہوگا۔‘