فرانسیسی صدارتی انتخاب دنیا بھر کے لیے اہم کیوں؟

فرانس میں 12 امیدوار صدارتی انتخاب کے لیے میدان میں ہیں جن میں موجودہ اور پسندیدہ صدر ایمانوئل میکروں بھی شامل ہیں جو انتہائی دائیں بازو کے چیلنج کے ماحول میں دوبارہ انتخاب چاہتے ہیں۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں 10 اپریل کو شمالی فرانس کے علاقے لے توکوئے میں صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے کے بعد پولنگ سٹیشن سے جاتے ہوئے (اے ایف پی)

ایک ایسے موقعے پر جب یورپی یونین کے مشرقی کنارے پر جنگ جاری ہے، فرانسیسی ووٹرز آج ایک ایسے صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں جس کے نتائج کے بین الاقوامی اثرات مرتب ہوں گے۔

فرانس 27 رکنی بلاک کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ وہ بلاک کا واحد ملک ہے جس کے پاس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار ہے۔ وہ بلاک کی واحد ایٹمی طاقت ہے۔ جیسا کہ روسی صدر ولادی میر پوتن یوکرین میں جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، فرانس کی طاقت یورپ کے ردعمل کو تشکیل دینے میں مدد فراہم کرے گی۔

فرانس میں 12 امیدوار صدارتی انتخاب کے لیے میدان میں ہیں جن میں موجودہ اور پسندیدہ صدر ایمانوئل میکروں بھی شامل ہیں جو انتہائی دائیں بازو کے چیلنج کے ماحول میں دوبارہ انتخاب چاہتے ہیں۔

یہاں وہ عوامل پیش کیے جا رہے ہیں جن کی بنا پر اتوار سے شروع ہونے والے دو راؤنڈز پر مشتمل فرانسیسی صدارتی انتخاب اہم کیوں ہے۔

نیٹو

یوکرین میں روس کی جنگ نے میکروں کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر اپنے اثر و رسوخ کا مظاہرہ کریں اور انتخابی مباحثوں میں اپنی نیٹو نواز ساکھ کو اجاگر کریں۔

میکروں صدارتی انتخاب میں سب سے آگے موجود واحد امیدوار ہیں جو اتحاد کے حامی ہیں جب کہ دیگر امیدوار نیٹو میں فرانس کے کردار کے حوالے مختلف خیالات رکھتے ہیں جس میں اس سے مکمل طور پر الگ ہونا بھی شامل ہے۔ اس طرح کی پیشرفت سے 73 سال قبل ابھرتی ہوئی سرد جنگ میں ارکان کی حفاظت کے لیے بنائے گئے اتحاد کو بہت بڑا دھچکا لگے گا۔

2019 میں نیٹو کی’دماغی موت‘کے اعلان کے باوجود یوکرین میں جنگ نے میکروں کو اتحاد کو نئے مقصد کے ساتھ تشکیل کی کوشش پر اکسایا ہے۔ یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کی سینئر فیلو سوسی ڈینیسن کہتی ہیں: ’میکروں واقعی نیٹو کا یورپی ستون بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اسے یوکرین کے تنازعے پر اپنی تیز رفتار سفارت کاری کے لیے استعمال کیا۔‘

انتہائی بائیں کے امیدوار ژاں لُوک میلوں شوں نیٹو کو یہ کہتے ہوئے قطعی طور پر چھوڑنا چاہتے ہیں کہ اس سے جھگڑوں اور عدم استحکام کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ نیٹو کے حوالے شکوک کا شکار صدر میلوشوں خاص طور پر پولینڈ کے لیے تشویش کا باعث ہو سکتے ہیں جس کی اس علاقے کے ساتھ 1160 کلومیٹر طویل سرحد ہے جس پر اب روس کا کنٹرول ہے۔ کئی دوسرے صدارتی امیدوار نیٹو کے ساتھ معاملات کو محدود کرنا یا اس سے مکمل طور پر الگ ہونا چاہتے ہیں۔ اگرچہ فرانس کا نیٹو سے علیحدگی کا امکان نہیں ہے تاہم ایسا ہوا تو یہ علیحدگی فرانس اور اتحادیوں کے درمیان گہری خیلج پیدا  کر دے گی اور امریکہ کو دور کر دے گی۔

یورپی تعاون

مبصرین کا کہنا ہے کہ میکروں کے دوبارہ انتخاب سے یورپ کی سلامتی اور دفاع میں تعاون اور سرمایہ کاری میں اضافے کا حقیقی امکان پید ہو گا۔ خاص طور پر یورپی یونین کی حامی نئی جرمن حکومت کی موجودگی میں۔

 میکروں دور میں فرانس کے دفاعی اخراجات میں سات ارب یورو (7.6 ارب ڈالر) کا اضافہ ہوا ہے۔ دفاعی اخراجات کا ہدف انہیں مجموعی قومی پیداوار کے دو فیصد تک لے جانا ہے۔ یہ ایسی بات ہے جس پر پوتن سمیت دوسرے رہنما قریب سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اپنی دوسری مدت صدارت میں میکروں تقریباً یقینی طور پر یوکرین کے معاملے میں مشترکہ یورپی ردعمل کی تشکیل اور روس کے خطرے کا مقابلہ کرنا چاہیں گے۔

انتہائی دائیں بازو کا اتحاد؟

صدارتی انتخاب جنگ کے بعد فرانس کی شناخت کو نئی شکل دے سکتا ہے اور اس بات کی نشاندہی کر سکتا ہے کہ آیا یورپ کی عوامی سیاست عروج پر ہے یا زوال کا شکار ہے۔  چند روز قبل عوامی سیاست کے علمبردار وکتراوربان کے ہنگری کے وزیر اعظم کے طور پر مسلسل چوتھی بار جیتنے کے بعد، نظریں اب فرانس کے دوبارہ ابھرنے والے انتہائی دائیں بازو کے امیدواروں کی طرف مبذول ہو گئی ہیں - خاص طور پر سیاسی جماعت نیشنل ریلی کی رہنما میرین لے پین کی طرف جو مسلمان خواتین کے سر ڈھانپنے اور حلال اور کوشر (یہودی مذبح) گوشت کے قصابوں پر پابندی لگانا اور یورپ کے کو چھوڑ کر باقی ملکوں سے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی لانا چاہتی ہیں۔

یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات سے وابستہ ڈینیسن کہتی ہیں: ’اگر کوئی انتہائی دائیں بازو کا امیدوار جیت گیا تو اس سے یورپ میں کسی قسم کا اتحاد یا محور بن سکتا ہے۔ لے پین نے حالیہ دنوں میں اوربان سے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنی تصاویر ٹویٹ کیں۔ وہ مضبوط قوموں پر مشتمل ریاستوں کے یورپ کی علمبردار بن رہی ہے۔‘

اس محور میں پولینڈ کے صدر آنڈرے ڈوڈا شامل ہو سکتے ہیں جو دائیں بازو کے پاپولسٹ اور ڈونلڈ ٹرمپ کے اتحادی ہیں۔ اس صورت حال نے مبصرین کو چوکنا کر دیا ہے۔

ڈینیسن کے بقول: ’اس وقت 30 فیصد سے زیادہ فرانسیسی ووٹرز کا کہنا ہے کہ وہ ایک انتہائی دائیں بازو کے امیدوار کو ووٹ دیں گے۔ اگر آپ میلوں شوں کو بھی ایک اور انتہائی اور نظام مخالف امیدوار کے طور پر شامل کرتے ہیں تو۔ یہ تعداد ووٹ دینے کی اہل آبادی کا تقریباً نصف ہے۔ اس بات کی کوئی مثال نہیں ملتی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فرانس میں اسلام اور امیگریشن پر متنازع خیالات کےمالک انتہائی دائیں بازو کے امیدوار ایرک زیمور کا پلہ بھاری ہے۔  تاہم اعتدال پسند میکروں نے بھی دو سال پہلے مسلمان ملکوں میں غصے کو ہوا دی جب انہوں نے یہ پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کرنے کے حق کا دفاع کیا۔ انہوں نے ایسا اس وقت کیا جب انہوں نے ایک ٹیچر کو خراج عقیدت پیش کیا جن کا سر طلبہ کو اظہار رائے کی آزادی کے طور پر خاکے دکھانے پر ایک بنیاد پرست نے قلم کر دیا۔

ایک امریکی دوست

امریکہ اکثر فرانس کو اپنا سب سے پرانا اتحادی قرار دیتا ہے اور روس پر پابندیوں سے لے کر موسمیاتی تبدیلی اور اقوام متحدہ تک واشنگٹن کو پیرس میں ایک قابل اعتماد شراکت دار کی ضرورت ہے۔ فرانس امریکہ کے لیے بحر اوقیانوس کی دوسری طرف ایک اہم دوست ہے۔ خاص طور پر اس لیے نہیں کہ اس کی حیثیت یہ ہے کہ وہ براعظم یورپ میں  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا واحد رکن ہے جس کے پاس ویٹو پاور ہے۔ آسٹریلیا کو آبدوزیں فروخت کرنے کے اربوں ڈالر کے معاہدے پر گذشتہ سال امریکہ اور فرانس کے درمیان اس تلخ جھگڑے کے باوجود جس میں فرانس کی سبکی ہوئی امریکی صدر جو بائیڈن اور میکروں کے درمیان اس وقت ٹھوس تعلقات قائم ہیں۔

ڈینیسن کے مطابق: ’ظاہر ہے کہ میکروں واحد امیدوار ہیں جو امریکہ کے ساتھ تعلقات کی تاریخ اور ساکھ کے مالک ہیں۔ دوسرے تمام امیدوار جغرافیائی و سیاسی غیر یقینی صورت حال کے موقعے پر صفر سے شروع ہوں گے۔‘

میکروں کے برعکس زیمور یا لے پین کے پاس منصب صدارت کا مطلب ممکنہ طور پر یہ ہے کہ ان مسائل پر ان کی توجہ کم ہو گی جو امریکہ کی ترجیح ہیں جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی۔ ڈینیسن نے مزید کہا کہ’ہو سکتا ہے کہ وہ پیرس موسمیاتی معاہدے کو برقرار اور عالمی درجہ حرارت کو 1.5 فیصد تک محدود رکھنے پر اٹھنے والے بھاری اخراجات کو ترجیح نہ دیں۔‘

براعظم میں ترک وطن

گذشتہ سال یورپ میں تارکین وطن کی بڑی تعداد میں آمد کے پیش نظر ترک وطن پر فرانس کا موقف اس کی سرحد کے قریب اور اس سے دور واقع  ممالک پر سختی سے اثر انداز ہوتا رہے گا۔ ایسا خاص طور پر اس کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ہے کیوں کہ بہت سے تارکین وطن برطانیہ جانے کے لیے فرانس سے گزرتے ہیں۔

گذشتہ نومبر میں رودبار انگلستان میں تارکین وطن کی کشتی الٹنے سے 27 افراد ہلاک ہو گئے تھے جس پر فرانس اور برطانیہ کے درمیان جھگڑا ہوا کہ اس حوالے سے ذمہ داری کس کی تھی۔ برطانیہ نے فرانس پر ساحل پر اچھی طرح گشت نہ کرنے کا الزام لگایا حالانکہ میکروں کا کہنا تھا کہ یہ ناممکن کام ہے۔ مبصرین یورپ کے تناظر میں فرانس کو تارکین وطن کے لیے خاص طور پر کھلا ملک نہیں سمجھتے اور میکروں کو ترک وطن کے معاملے میں نسبتاً سختی سے کام لینے والے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں۔

لیکن صدارتی الیکشن میں کامیابی کی صورت میں لے پین یا زیمور، میکروں کے مقابلے میں ممکنہ طور پر سخت پالیسیوں پر عمل کا آغاز کریں گے۔ جیسے کہ غیر فرانسیسی شہریوں کو سرکاری طور پر ملنے والی امدادی رقم میں کمی اور سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی تعداد محدود کرنا۔ کچھ امیدواروں نے ٹرمپ کی طرز پر سرحدوں پر باڑ لگانے کی حمایت کی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا