امریکی خاتون کا داعش کی خواتین کی تربیت کا اعتراف

کینساس کی سابق رہائشی یہ خاتون ایک زمانے میں استاد تھیں، لیکن بعد میں داعش کے عسکریت پسندوں کی رہنما بن گئیں۔

 31 جنوری 2022 کو اسکندریہ ورجینیا شیرف کے دفتر کی جانب سے فراہم کی گئی اس غیرتاریخ شدہ تصویر میں ایلیسن فلوک-ایکرین کو دکھایا گیا ہے  (فوٹو: اے ایف پی/ اسکندریہ ورجینیا شیرف آفس)

ایک امریکی خاتون نے ورجینیا کے مشرقی ضلع میں غیرملکی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ عراق و شام کی جانب سے شام میں 100 سے زائد خواتین اور نوجوان لڑکیوں پر مبنی فوجی بٹالین کو منظم کرنے اور اس کی قیادت کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق 42 سالہ ایلیسن فلاک ایکرن نے، جن کا اسلامی نام امے محمد ال امریکی ہے، نے اعتراف کیا کہ انہوں نے داعش کی مدد کی اور خواتین اور لڑکیوں کو تشدد کی تربیت دی۔

کینساس کی سابق رہائشی یہ خاتون، جو ایک ماں بھی ہیں، ایک زمانے میں استاد تھیں، لیکن بعد میں داعش کے عسکریت پسندوں کی رہنما بن گئیں اور شام میں داعش میں شمولیت سے قبل لیبیا میں عسکریت پسندوں کے ایک گروپ کی قیادت کی۔

خاتون کو اکتوبر میں سزا سنائی جائے گی اور امکان ہے کہ انہیں کم از کم پانچ سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

ایلیسن فلاک ایکرن حیاتیات کی طالبہ تھیں، جو شام میں داعش میں شامل ہونے سے پہلے ترکی اور مصر بھی گئیں۔

وہ داعش کے ساتھ مل کر شام کے شہر الرقہ میں خطیبہ ناصیبہ نامی خواتین کی بٹالین کی قیادت کر رہی تھیں، جس میں داعش ایک رکن تھی۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس کا بنیادی کام خواتین اور بچوں کو کلاشنکوف سے لے کر خودکش جیکٹ تک ہر چیز کے استعمال کی تربیت دینا تھا۔

انہوں نے منگل کو امریکی ریاست ورجینیا کی ایک عدالت میں اعتراف کیا کہ انہوں نے خواتین بٹالین کو تربیت دی تھی، لیکن دعویٰ کیا کہ اس میں بچوں کو تشدد کی تربیت نہیں دی گئی تھی۔

سی این این کے مطابق ان کا کہنا تھا: ’ہم نے نوجوان لڑکیوں کو بڑے پیمانے پر تربیت نہیں دی ہے۔‘

قابل ذکر بات یہ ہے کہ جن خواتین نے یہ تربیت حاصل کی ہے ان میں سے کچھ نے اس مقدمے میں گواہی دی ہے۔

امریکی محکمہ انصاف کے مطابق ایلیسن نے ستمبر 2011 سے لے کر مئی 2019 کے دوران بیرون ملک شام، لیبیا اور عراق سمیت متعدد ممالک کا سفر کیا اور دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث رہیں۔ انہوں نے داعش کی ایک فوجی بٹالین کی رہنما اور منتظم کے طور پر خدمات انجام دیں، جسے خطیبہ نصیبہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں انہوں نے خواتین کو خودکار فائرنگ اے کے 47، اسالٹ رائفلز، دستی بموں اور خودکش بیلٹ کے استعمال کی تربیت دی۔

تربیت حاصل کرنے والی زیادہ تر خواتین اور نوجوان لڑکیوں نے، جن میں 10 یا 11 سال کی عمر کی نوجوان لڑکیاں بھی شامل ہیں، داعش کی جانب سے شام میں ان سے فوجی تربیت حاصل کی۔

2008 میں یا اس کے آس پاس، ایلیسن نے امریکہ چھوڑ دیا اور اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ مصر چلی گئیں، جو مبینہ طور پر شدت پسند تنظیم انصار الشریعہ کا ایک سابق رکن تھا۔ 2011 کے آخر میں، ایلیسن اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ بن غازی، لیبیا میں مقیم تھیں۔ 11 ستمبر 2012 کے بعد بن غازی میں امریکی خصوصی مشن اور سی آئی اے کے اڈے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد، ایلیسن کے دوسرے شوہر نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے امریکی کمپاؤنڈ سے کم از کم ایک باکس اور ایک الیکٹرانک ڈیوائس حاصل کی، جنہیں وہ اپنی رہائش گاہ پر لایا جہاں ایلیسن نے اس چوری شدہ امریکی سرکاری مواد کا جائزہ لینے اور خلاصہ کرنے میں مدد کی۔

امریکی حکام کے مطابق 2014 کے وسط میں یا اس کے آس پاس ایلیسن اور دیگر کو واپس شام میں سمگل کر دیا گیا تھا۔ شام میں رہتے ہوئے انہوں نے ایک گواہ کو امریکہ میں حملہ کرنے کی اپنی خواہش کے بارے میں بتایا۔ اس حملے کو انجام دینے کے لیے ایلیسن نے وضاحت کی کہ وہ ایک شاپنگ مال میں جا سکتی ہیں، تہہ خانے یا پارکنگ گیراج میں دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی کھڑی کر سکتی ہیں اور گاڑی میں موجود دھماکہ خیز مواد کو سیل فون سے اڑا سکتی ہیں۔ ایلیسن نے بم اور دھماکہ خیز مواد بنانے کا طریقہ سیکھنے کے بارے میں بھی بات کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ کسی بھی ایسے حملے کو وسائل کا ضیاع سمجھتی ہیں جس میں بڑی تعداد میں افراد ہلاک نہ ہوں۔ ایلیسن امریکہ سے باہر حملوں کے بارے میں سنتیں اور تبصرہ کرتیں کہ کاش یہ حملہ امریکی سرزمین پر ہوا ہوتا۔

2015 میں یا اس کے آس پاس ایلیسن، ان کے دوسرے شوہر اور دیگر شام سے عراق کے شہر موصل چلے گئے، جہاں وہ عارضی طور پر موصل یونیورسٹی کے اندر داعش کے زیر کنٹرول کمپاؤنڈ میں رہائش پذیر تھے۔ جب ایلیسن فلوک ایکرین موصل پہنچیں تو ان کی ملاقات داعش کے اہلکاروں سے ہوئی جو ان بیوہ خواتین کے گھروں کے انچارج تھے جن کے شوہر داعش کے لیے لڑتے ہوئے مر گئے تھے۔ ایلیسن نے داعش کے ان اہلکاروں کی مدد کی۔

2016 کے وسط میں یا اس کے آس پاس، ایلیسن نے شام کے شہر رقہ میں خواتین کا مرکز قائم کرنے کی کوشش کی قیادت کی اور اسے منظم کیا۔ انہوں نے مرکز قائم کرنے کے لیے ’ولی‘ سے اجازت حاصل کی جو داعش کی جانب سے رقہ کا میئر مقرر کیا گیا تھا۔ وہاں انہوں نے اور دیگر نے طبی خدمات، اسلامی ریاست کے بارے میں تعلیمی خدمات، بچوں کی دیکھ بھال اور خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو مختلف تربیت فراہم کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مرکز کے رہنما کے طور پر، ایلیسن نے متعدد خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو خودکار اے کے 47، اسالٹ رائفلز، دستی بموں اور دھماکہ خیز خودکش بیلٹس کے استعمال کی تربیت فراہم کرنے میں ان کی مدد کی۔

2016 کے آخر میں یا اس کے آس پاس، رقہ کے داعش کے سربراہ نے ’خطیبہ نصیبہ‘ کے قیام کی منظوری دی، یہ ایک فوجی بٹالین تھی، جس میں صرف خواتین داعش ارکان شامل ہوں گے۔ خطیبہ نصیبہ نے فروری 2017 میں یا اس کے آس پاس کارروائیاں شروع کیں۔

2018 میں ایلیسن  نے ایک اور گواہ کو بتایا کہ انہوں نے شام میں ایک فرد کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے خاندان کے کسی فرد کو یہ پیغام بھیجے کہ ان کی موت ہوچکی ہے تاکہ امریکی حکومت انہیں تلاش کرنے کی کوشش نہ کرے۔ انہوں نے اسی گواہ کو بتایا کہ ’کفار (کافروں)‘ کو مارنا اور شام میں داعش کی طرف سے ہلاکت ضروری ہے۔ ایلیسن  کو 28 جنوری 2011 کو ورجینیا کے مشرقی ضلع میں تحویل میں لیا گیا۔    

جج لیونی ایم برنکیما نے استغاثہ کی درخواست قبول کر لی۔ ایلیسن  نے ایک غیر ملکی شدت پسند تنظیم کو مادی مدد یا وسائل فراہم کرنے کی سازش کرنے کا اعتراف کیا اور انہیں 25 اکتوبر کو سزا سنائی جائے گی۔ انہیں زیادہ سے زیادہ 20 سال قید کی سزا کا سامنا ہے۔ ایک وفاقی ضلعی عدالت کے جج امریکی سزا کے رہنما خطوط اور دیگر قانونی عوامل پر غور کرنے کے بعد کسی بھی سزا کا تعین کریں گے۔

فرسٹ اسسٹنٹ یو ایس اٹارنی راج پاریکھ اور ایسٹرن ڈسٹرکٹ آف ورجینیا کے اسسٹنٹ یو ایس اٹارنی جان گبز قومی سلامتی ڈویژن کے انسداد دہشت گردی سیکشن کی مدد سے مقدمہ چلا رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین