’ٹی ٹی پی سے مذاکرات پرپارلیمان کو اعتماد میں لیں گے‘

اجلاس کا ایجنڈا افغانستان کے امور پر مشتمل تھا اس کے علاوہ مشرقی اور مغربی سرحدوں اور پاکستان ایران سرحد پر سکیورٹی کی صورتحال کے معاملے پر بریفنگ بھی دی گئی۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں عسکری قیادت کی سکیورٹی معاملات پر بریفنگ کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ مذاکرات کا عمل تمام اراکین پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کی بعد آگے بڑھایا جائے گا۔

سوا تین گھنٹے جاری رہنے والے قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے بعد وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے میڈیا کو اجلاس میں ہونے والے فیصلوں سے متعلق آگاہ کیا۔ رانا ثنااللہ نے کہا کہ آج قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس وزیراعظم کی صدارت میں ہوا جس میں کچھ اراکین اور عسکری قیادت موجود تھی۔

انہوں نے بتایا کہ عسکری حکام نے افغانستان کی صورتحال پر بریفنگ بھی دی۔ اس کے علاوہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر بات چیت کی گئی ہے۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کے لیے ایسا ہی ان کیمرہ اجلاس بلایا جائے گا۔

اجلاس کا ایجنڈا

اجلاس کا ایجنڈا افغانستان کے امور پر مشتمل تھا اس کے علاوہ مشرقی اور مغربی سرحدوں اور پاکستان ایران سرحد پر سکیورٹی کی صورتحال کے معاملے پر بریفنگ بھی دی گئی۔

پاکستان کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات و چیلنجز سے متعلق بھی اعلی عسکری حکام نے بریفنگ دی تھی۔

سکیورٹی کی وجہ اجلاس محدود کیا گیا

بدھ کو ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی نوعیت تبدیل کرتے ہوئے اسے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر مزید محدود کر دیا گیا تھا۔

اس سے قبل 29 ارکان پر مشتمل پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اعلامیے کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی نے صدارت کرنی تھی۔ اس کے لیے پارلیمنٹ میں ہال کی دستیابی بھی یقینی بنائی گئی تھی لیکن بعد میں عسکری حکام کی جانب سے تحفظات سامنے آنے پر کمیٹی اجلاس کا مقام تبدیل کرکے وزیراعظم ہاؤس رکھ لیا گیا۔

وزیراعظم ہاوس میں ان کیمرہ اجلاس کو محدود کرتے ہوئے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں تبدیل کر دیا گیا جس کی صدارت سپیکر قومی اسمبلی کے بجائے وزیراعظم شہباز شریف نے خود کی۔ تینوں سروسز چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور وزیر خارجہ، وزیر داخلہ، وزیر اطلاعات سمیت چند وزرا نے شرکت کی۔

واضح رہے کہ موجودہ حکومت میں ہونے والا یہ دوسرا سکیورٹی اجلاس ہے جس میں سروسز چیف کو بلایا گیا ہے جبکہ مجموعی طور پر گذشتہ تین ماہ میں یہ تیسرا اجلاس ہے۔

پچھلی حکومت نے مارچ میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا تھا جس میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی جانب بھیجے گئے سائفر پر بات چیت کی گئی تھی۔ جبکہ اتحادی حکومت نے 22 اپریل 2022 کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا تھا جس میں امریکہ میں تعینات پاکستان کے سفیر اسد مجید (جو اب بیلجئم میں سفیر ہیں) کو طلب کیا تھا تاکہ سازش اور مداخلت کے حوالے سے پیدا ہونے والے ابہام کو دور کیا جا سکے۔

طالبان مذاکرات پر ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے بتایا کہ ’پارلیمنٹ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں معاونت فراہم کرے گی۔‘

رانا ثنااللہ نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات آئین و قانون کے مطابق ہوں گے اور پارلیمان کو اس پر اعتماد میں لے کر ہر فیصلے میں ساتھ رکھا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ’مذاکرات کی شرائط کے مطابق اگر کوئی آئین پاکستان کو قبول کرتا ہے اور جو جرم کیا ہے اس میں سرینڈر کرتا ہے تو یہ آئین کے مطابق ہے۔‘

جب اُن سے پوچھا گیا کہ اب تک تحریک طالبان کے کتنے لوگ رہا کیے جا چکے ہیں انہوں نے اس سوال کے جواب میں بتایا ابھی تک ٹی ٹی پی کے حوالے سے کوئی رہائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان