مستونگ ایجوکیشن انکلیو: ایک چار دیواری کے اندر سکول، کالج اور یونیورسٹی بھی

بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ایجوکیش انکلیو کے منفرد منصوبے کی بنیاد 2008 میں رکھی گئی جس کا مقصد سکول سے لے کر یونیورسٹی تک کی تعلیم ایک ہی جگہ پر میسر کرنا ہے۔

ایجوکیشن انکلیو میں یونیورسٹی کے سب کیمپس میں طلبہ کی تعداد 500 کے قریب ہے اور 14 اساتذہ یہاں پڑھا رہے ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

عنبرین کو ڈاکٹر بننے کا شوق تھا لیکن مستونگ سے کوئٹہ تک سفر اور پھر ہاسٹل میں رہنا ان کی راہ میں رکاوٹ تھا، مگر اب انہیں مستونگ ایجوکیشن انکلیو کی صورت میں اپنے خواب کو پورا کرنے کا موقع مل گیا ہے۔

بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ایجوکیش انکلیو کے منفرد منصوبے کی بنیاد 2008 میں رکھی گئی جس کا مقصد سکول سے لے کر یونیورسٹی تک تعلیم ایک ہی جگہ پر میسر کرنا ہے۔

یہ منصوبہ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کا تھا جنہوں نے اس کے لیے  28 ایکٹر پر مشتمل زمین مختص کی اور 28 کروڑ روپے جاری کیے۔

مستونگ ایجوکیشن انکلیو اس وقت فعال ہے اور اس میں سکول، کالج اور یونیورسٹی کی عمارت موجود ہے۔

عنبرین یہیں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ کیمپس ان کے لیے نعمت سے کم نہیں ہے اور وہ اور ان کے گھر والے بہت مطمئن ہیں۔ ’میں یہاں خود کو محفوظ تصور کرتی ہوں۔‘

مزید پڑھیے: بلوچستان میں چار ہزار سکول بند پڑے ہیں

اس انکلیو میں ایک فنی تربیت کا ادارہ بھی قائم کیا گیا ہے، جبکہ اس کے اندر ایک لائبریری اور ملٹی پرپز ہال بھی موجود ہے۔ طلبہ اور طالبات کو لانے لے جانے کے لیے بسوں کی سہولت بھی موجود ہے۔

یونیورسٹی آف بلوچستان کے کیمپس میں اسسٹنٹ پروفیسراور ایجوکیشن انکلیو کے کوآرڈینیٹرغلام مصطفیٰ شاہوانی نے بتایا کہ یہ منصوبہ اس ضلعے میں تعلیم کے لیے ایک بہت اچھا قدم ثابت ہو رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نواب اسلم رئیسانی کی خواہش تھی کہ عوام کے مطالبے کے مطابق ایک ایسی جگہ ہو جہاں تمام تعلیمی ادارے ایک چار دیواری کے اندر قائم کیے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے تحت ضلعے کے نوجوانوں کو بہتر تعلیم کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔ ’اس انکلیو کو کامیاب بنانے کا مقصد یہ ہے کہ طلبہ و طالبات اور ان کے والدین کو ان کے گھر کے دروازے پر سہولت مل جائے۔‘

انہوں نے بتایا کہ محکمہ تعلیم کے دفاتر کو بھی یہاں منتقل کرنے کا منصوبہ ہے اور کھیلوں کے حوالے سے بھی میدان کی جگہ مختص ہے۔

مصطفیٰ نے بتایا کہ انکلیو میں ایک کثیرالاستمعال ہال بھی قائم کیا گیا ہے، جہاں پر 500 سے زائد افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جس میں غیر نصابی سرگرمیاں اور پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی سب کیمپس کا قیام 2016 میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایک فنڈ  کے تحت عمل میں آیا جس میں دور دراز کے طلبہ و طالبات کو تعلمی اخراجات اور سفر کی سہولت نہ ملنے سے تعلیم میں تعطل کا خاتمہ کرنا تھا۔

غلام مصطفیٰ شاہوانی نے مزید بتایا کہ یہاں پر کیمپس 2017 میں فعال ہوا اور پہلے اس میں ایک شعبہ فارمیسی کا تھا جس میں 55 طلبہ تھے۔

مزید پڑھیے: سندھ میں 36 خیمہ سکول چلانے والے نوجوان

تاہم اب چار شعبے فعل ہیں جن میں منیجمنٹ سائنس، تعلیم، کمپیوٹر سائنس شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت یونیورسٹی کے سب کیمپس میں طلبہ کی تعداد 500 کے قریب ہے اور 14 اساتذہ یہاں پڑھا رہے ہیں۔

مصطفیٰ نے کہا: ’اس سے قبل ہمارے ضلعے میں 70 فیصد بچیاں پرائمری پاس کرکے گھروں میں بیٹھ جاتی تھیں تاہم بعد میں ڈگری گرلز کالج نے بھی بہت حد تک کمی کو پورا کیا ہے لیکن اب یونیورسٹی سب کیمپس کے کھلنے سے ان بچیوں کو فائدہ ملا جن کا تعلیمی سلسلہ رک چکا تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ انکلیو کے باعث طلبہ اور طالبات میں روابط بھی بڑھ رہے ہیں اور اس سے جو یہاں پر ایک سیاسی خلا تھا وہ بھی ان طلبہ کے علم میں اضافے اور جدت سے ہم آہنگ ہونے کے باعث ختم ہو رہا ہے۔

مصطفیٰ شاہوانی نے بتایا کہ حکومت کے تعاون کے ساتھ ہم اپنی مدد آپ کے تحت بھی کوششیں جاری رکھے ہوئےہیں۔ ’ہمارا ارادہ ہے کہ طلبہ و طالبات کے لیے فری لانسنگ جو آج کل ایک اہم روزگار ہے اس کے حوالے سے سیشن کروائیں تاکہ وہ گھر بیٹھے روزگار کرسکیں اور دوسروں کو بھی اس کی تربیت دے سکیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس