یوکرین جنگ: روس اور چین کی نظریں نیٹو کی ’کمزوری‘ پر

ماسکو طویل عرصے سے اس جزیرہ نما میں ایک بڑا حصہ چاہتا ہے جو سولہویں صدی سے روسی شکاریوں، سمندری جہازوں، ماہی گیروں کا ٹھکانہ رہا ہے۔

چار فروری 2022 کی اس تصویر میں روسی صدر ولادی میر پوتن اور چینی صدر شی جنگ پنگ بیجنگ میں ہونے والی ایک ملاقات سے قبل دیکھے جا سکتے ہیں(اے ایف پی)

روسی جھنڈے تند قطبی ہوا میں لہرا رہے ہیں، ولادی میر لینن کا ایک مجسمہ برف میں گڑھا ایک نعرہ بلند کرتا دکھائی دیتا ہے کہ ’ہماری منزل کمیونزم ہے۔‘

نہیں، یہ آرکٹک میں کھوئی ہوئی کسی سوویت بستی کا منظر نہیں بلکہ ناروے کا ایک کونا ہے جہاں ماسکو نظریاتی طور پر تعمیر، کھدائی اور مچھلیاں پکڑنے سمیت جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔

سوالبارڈ جزیرہ نما کے سب سے بڑے جزیرے سپیٹس برگن اور’آرکٹک میں نیٹو کی کمزوری‘ میں خوش آمدید۔

ناروے اور قطب شمالی کے درمیان آدھے راستے میں گلیشیرز اور پہاڑی چوٹیوں والے یہ شاندار جزائر نہ صرف ماسکو بلکہ بیجنگ کے لیے بھی ایک تزویراتی اور اقتصادی پل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

یہ سب کچھ اب تک کے سب سے عجیب و غریب بین الاقوامی معاہدوں میں سے ایک کی وجہ سے ہوا، جس سے ناروے کو خودمختاری اور 46 ممالک کے شہریوں کو ان جزائر کے ممکنہ وسیع وسائل کا برابری کی سطح پر استحصال کرنے کی اجازت ملی۔

یہی وجہ ہے کہ دونبیس سے تعلق رکھنے والے 370 روسی اور یوکرینی کان کن بیرنٹس برگ میں کام کرتے ہیں جو سپیٹس برگن کا ایک کٹا ہوا کونا ہے جہاں سے سوویت یونین نے کئی دہائیوں تک کوئلہ نکالا اور جہاں سال کے تقریبا تین ماہ تک گھپ اندھیرا چھایا رہتا ہے۔

ماسکو کے قونصلر سرگئی گوشچن نے کہا کہ:’سپیٹس برگن پر روسی پسینہ اور خون صدیوں سے موجود ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا:’میں یہ دلیل نہیں دے رہا کہ یہ ناروے کا علاقہ نہیں بلکہ یہ روسی تاریخ کا حصہ ہے۔‘

ماسکو طویل عرصے سے اس جزیرہ نما میں ایک بڑا حصہ چاہتا ہے جو سولہویں صدی سے  روسی شکاریوں، سمندری جہازوں، ماہی گیروں کا ٹھکانہ رہا ہے۔

روس اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ ان جزائر کو ناروے کے دیے گئے نام سوالبارڈ کی بجائے اصل نام سپیٹس برگن سے پکارا جائے۔ سوالبارڈ 1920 میں ناروے کے حوالے کرنے کے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد سے اس علاقے کا سرکاری نام ہے۔ 

جوہری آبدوزیں

روس کے طاقتور شمالی بحری بیڑے کی جوہری آبدوزوں کو بھی شمالی بحر اوقیانوس میں داخل ہونے کے لیے سوالبارڈ کے جنوبی ترین جزیرے کے قریب سے گزرنا پڑتا ہے۔

ناروے کے فریڈٹجوف نانسن انسٹی ٹیوٹ کے سیاسی سائنسدان ایرلڈ مو نے کہا کہ:’روس کا بنیادی مفاد ایسی صورت حال سے بچنا ہے (جہاں) دوسرے (جزائر) کو جارحانہ انداز میں استعمال کرتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ: اس کو یقینی بنانے کے لیے وہ ’مناسب موجودگی برقرار رکھتے ہیں اور ہونے والی تمام سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں۔‘

دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جزائر کی مشترکہ اتھارٹی حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد اب روس’دو طرفہ مشاورت‘ پر زور دے رہا ہے تاکہ اس کی رکی ہوئی سرگرمیاں بحال ہوں۔

یہاں کان کنی سے ملنے والی آمدن برسوں سے بند ہے، اس کے ساتھ ہی یہاں سیاحت اور سائنسی تحقیق میں اضافہ ہوا ہے۔

لیکن دارالحکومت لانگ ایئربائین تک کوئی سڑک نہ ہونے کی وجہ سے سیاحوں کو کشتی یا موسم کی مناسبت سے برف پر چلنے والی سواریوں کے ذریعے بیرنٹس برگ آنا پڑتا ہے۔

روسی مورخ اور سیاحتی گائیڈ نتالیا مکسی میشینا نے کہا کہ بیرنٹس برگ اپنے سوویت آثار قائم رکھے ہوئے ہے’ اس لیے نہیں کہ ہمیں اب بھی کمیونزم کی امید ہے بلکہ اس لیے کہ ہم اپنے ورثے کی قدر کرتے ہیں اور سیاح بھی ان کے ساتھ اپنی تصاویر لینا پسند کرتے ہیں۔‘

روسیوں کو محدود کرنا

روس نے ناروے پر الزام لگایا ہے کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کو ماسکو کےعزائم  محدود کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے، مثال کے طور پر روسی ہیلی کاپٹر پروازوں کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔

ان جزائر کو ناروے اور روس سے الگ کرنے والے بحیرہ بیرنٹس میں ناروے کی پالیسی بنانے والے سابق سفارت کار سورے جرویل نے اعتراف کیا کہ:’ہم نے روسی جگہوں کے ارد گرد قدرتی ذخائر رکھنا شروع کر دیے ہیں۔‘

سورے جرویل نے کہا کہ یہ کام روسیوں کو محدود کرنے کے لیے’سرکاری طور پر نہیں کیا گیا‘ لیکن حقیقت میں ایسا ہی ہوا۔ یقینا ہمارے پاس اچھے دلائل تھے، صورت حال بہت نازک ہے۔

 ’معاہدے کے تحت ناروے جزائرکی خوبصورتی کے تحفظ کا پابند تھا۔ لیکن ہم نے خاص طور پر روسی سائٹس کے آس پاس کے علاقوں کی حفاظت کی۔‘

سرد جنگ کے اختتام پر جزائر پر پیرامیڈین میں سوویت کان کنی کے ایک اور آپریشن میں، روسی ناروے کے باشندوں سے زیادہ تھے۔

ماسکو باقاعدگی سے اوسلو پر 1920 کے معاہدے کے ایک اہم ترین آرٹیکل کی خلاف ورزی کا الزام لگاتا ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت سوالبارڈ مکمل طو پر غیر فوجی زون ہے۔

جب بھی ناروے کے فریگیٹ ڈاکس یا نیٹو کے قانون سازوں کا دورہ ہوتا ہے تو روس احتجاج کرتا ہے، اور خاص طور پر لانگ ایئربائین کے قریب واقع بہت بڑے سوالسیٹ سیٹلائٹ سٹیشن سے خبردار رہتا ہے۔ گلوبل سیڈ والٹ کے قریب ایک ہوا دار سطح مرتفع پر تقریباً 130 اینٹینا ہیں جن کے اوپر دیوہیکل گنبد ہے۔ یہ اینٹینا خلا میں را بطے کا کام کرتے ہیں۔

’نوح کی کشتی‘ نامی اس گلوبل سیڈ والٹ میں بیجوں کی 11 لاکھ45 ہزار693 اقسام کو منجمد کیا گیا ہے۔ ماسکو کو شبہ ہے کہ وہ  اینٹینا فوجی سیارچوں سے ڈیٹا بھی ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں۔

جنوری میں سوالسیٹ سٹیشن کو مین لینڈ سے ملانے والی دو فائبر آپٹک تاروں میں سے ایک کو پراسرار طور پر نقصان پہنچا تھا۔

روس پر بھی اس معاہدے کے فوائد حاصل کرنے کا الزام لگایا گیا ہے، جیسا کہ اس وقت کے نائب وزیر اعظم دمتری روگوزن 2015 میں غیر اعلانیہ طور پر سوالبارڈ گئے تھے۔ ان پر یورپ نے کرائمیا کے الحاق کی وجہ سے پابندیاں لگائی تھیں۔ یا جب چیچن خصوصی افواج نے قطب شمالی کے قریب فوجی مشق کے لیے جاتے ہوئے وہاں قیام کیا تھا۔

ناروے کے تجزیہ کار ایرلڈ مو نے کہا کہ ’سوالبارڈ عام بین الاقوامی ماحول کے حوالے سے حساس ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں روس عدم اطمینان کا اظہار کر کے آسانی سے ناروے کو دباؤ میں لا سکتا ہے۔‘

'نیٹو کو غیر جانبدار بنانا‘

جرمنی میں جارج سی مارشل یورپین سینٹر فار سکیورٹی سٹڈیز کے پروفیسر جیمز ویدر نے کہا کہ سوالبارڈ ’آرکٹک میں نیٹو کی کمزوری ہے کیونکہ اس کا مین لینڈ ناروے سے فاصلہ اور’عجیب قانونی حیثیت‘ روسی مداخلت کے لیے متعدد ممکنہ مواقع فراہم کرتی ہے۔‘

مزید پڑھیے: یوکرین جنگ: کیا جی سیون روسی سونے پر پابندی عائد کر سکتا ہے؟

برطانوی فوج کے سابق افسر نے 2018 میں لکھا تھا کہ:’ اگرچہ براہ راست فوجی تصادم کا خطرہ کم ہے لیکن روس سوالبارڈ پر جوا کھیل سکتا ہے کیوں کہ اس  کی قیمت مغرب کو تقسیم کرنے اور نیٹو کو غیر جانبدار بنانے کے روس کے طویل مدتی مقاصد کو آگے بڑھانے کی صورت میں وصول ہوگی‘۔

روسی شکایات کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ناروے کا کہنا ہے کہ ان جزائر پر اس کی خودمختاری بالکل ایسے ہی ہے جیسے ملک کے کسی بھی دوسرے علاقے پر۔

ناروے کے موجودہ وزیر اعظم جوناس گہر سٹور2005 اور 2012 کے درمیان جب وزیر خارجہ تھے تو روسی ہم منصب سرگے لاوروف کے ساتھ ان کے تعلقات کی تعریف کی گئی، وہ ایک اوسلو کے ’ہائی نارتھ، لو ٹینشن‘ نظریے کے سرکردہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’میں یہ نہیں کہوں گا کہ ہمیں آزمایہ جا رہا ہے، لیکن یہاں اور دور دراز ممالک کی آرکٹک میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ جب نئی سرگرمیوں، تحقیق (اور) سیاحت کی بات آتی ہے تو ہم سوالبارڈ میں کمیونٹیز کو ترقی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کام شفاف انداز میں کیا جائے گا۔‘

اس کے باوجود ناروے نے 2016 میں لانگ ایئربائین کے قریب ایک بہت بڑی جاگیر خریدنے پر 30 کروڑ کرونر (ساڑھے 33 کروڑ یورو) خرچ کیے جو اس جزیرہ نما میں واحد نجی جاگیر تھی۔

حکومت نے ان اخراجات کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ غیر ملکی اور خاص طور پر چینی سرمایہ کاروں کے مفاد کے پیش نظر ’چاہتے ہیں کہ زمین نارویجن ہو۔‘

روس نے چین جیسی نئی طاقتوں کی آمد کے خدشات پر فوری رد عمل دیا ہے۔

روسی قونصلر گوشچن نے کہا کہ ’اگر ہم سپیٹس برگن سے نکلتے ہیں تو پھر ہماری جگہ کون لے سکتا ہے؟ مثال کے طور پر یہ چین یا امریکہ یا سپیٹس برگن معاہدے کا کوئی رکن ملک ہو سکتا ہے۔‘

پرچم گاڑتا ہوا چین

اپنے بلند عرض بلد کے ہمسایوں گرین لینڈ، آئس لینڈ اور جزائر فارو کی طرح لگتا ہے سوالبارڈ پر بھی چین کی نظروں ہیں۔ درحقیقت اب یہ خود کو ’آرکٹک قریب‘ ریاست کے طور پر بیان کرتا ہے اور’پولر سلک روڈ‘ بنانا چاہتا ہے۔

یہ خطہ باقی سیارے سے تین گنا زیادہ تیزی سے گرم ہو رہا ہے، برف کم ہونے سے معاشی مواقع اور سمندری راستے کھل رہے ہیں، اگرچہ ان میں کچھ حقیقی سے زیادہ نظریاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:  پوتن کا بیلاروس کو جوہری میزائل فراہم کرنے کا وعدہ

ماہی گیری کے لیے نئے پانیوں اور تیل اور گیس کے ذخائر جیسے ممکنہ وسائل تک آسان رسائی والی اس جگہ پر ہر کوئی قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔

سپٹس برگن کی تیسری سب سے بڑی بستی نی الیسنڈ میں چین کے انسٹی ٹیوٹ آف پولر ریسرچ کو نظر انداز کرنا مشکل ہے، جو کان کنی والی ایک سابق کمیونٹی ہے اور اب انٹرنیشنل سائنس کمیونٹی کو دے دی گئی ہے۔

سامراجی چین کی علامتیں سنگ مرمر کے دو شیر ناروے کی ملکیتی عمارت کے داخلی دروازے پر نصب ہیں۔ اس عمارت کو اس کے رہائشی پیلے دریا کا سٹیشن کہتے ہیں۔

بوڈو میں ناروے کی نورڈ یونیورسٹی کی سیاسیات ٹوربجورن پیڈرسن کے مطابق یہ ’پرچم دکھانے‘ کی ایک واضح مثال ہے۔

انہوں نے گذشتہ سال پولر جرنل میں لکھا تھا کہ ’کچھ غیر ملکیوں نے، وہاں اپنی موجودگی کو قومی سٹیشنوں اور تزویراتی اقدام کے طور پر پیش کیا، جس سے انہیں ممکنہ طور پر جزائر اور آرکٹک کے وسیع علاقے میں سیاسی طاقت اور اثر و رسوخ کا حق مل سکتا ہے۔‘

پیڈرسن نے مزید کہا کہ: سوالبارڈ میں تحقیق کے لیے موجودگی کا محرک جغرافیائی ہو سکتا ہے۔‘

’اگر اسے مضبوط کیا جائے تو تزویراتی موجودگی سے ممکنہ طور پر کچھ لوگوں کو حوصلہ مل سکتا ہے، بشمول بڑی طاقتوں کے، اور میزبان ملک ناروے کے لیے ایک سکیورٹی چیلنج بن سکتا ہے۔‘

اوسلو ’سائنسی سفارت کاری‘ کا ایک مدھم نظریہ رکھتا ہے جو انٹارکٹیکا کے لیے ایک خودمختار ملک سے زیادہ موزوں ہے۔

2019 میں اس نے قومی تحقیقی سٹیشنوں کے اس خیال کی حوصلہ شکنی کی کوششیں شروع کی تھیں جہاں ممالک تحقیقی عمارات شیئر کرنے کے بدلے اپنا جھنڈا لہرا سکتے ہیں۔

یہ تبدیلی فرانکو جرمن سٹیشن پر سب سے پہلے دیکھی گئی۔ 2014 کے بعد سے پیرس اور برلن کوشش کر رہے ہیں کہ مختلف جگہوں پر پھیلے ہوئے محقیقین کو ایک نئی عمارت میں جمع کیا جائے، لیکن ابھی تک ان کوششوں سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔

نجی طور پر ناروے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ کوئی اصول نہیں بنانا چاہتے۔

سورے جرویل نے کہا کہ ’ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم ایک کام فرانسیسیوں کو کرنے دیں اور چینیوں کو اس سے روکیں۔ امتیازی سلوک سوالبارڈ معاہدے کا اصول نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا