مون سون کی ہوائیں پاکستان میں: سیلاب کا خطرہ کہاں کہاں؟

وزارت موسمیاتی تبدیلی نے خدشہ ظاہر کر رکھا ہے کہ رواں سال دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی سمیت شہری علاقوں کو بھی طوفانی بارشوں کے خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

11 جولائی 2022 کو کراچی میں موسلا دھار بارش کے بعد مسافر سیلاب زدہ گلی سے گزر رہے ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان بھر میں حالیہ بارشوں کے باعث ملک کے کئی علاقے زیر آب آ چکے ہیں۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا اور سندھ کے مختلف علاقوں کی سوشل میڈیا پر سامنے آنی والی ویڈیوز پریشان کن منظر پیش کر رہی ہیں اور محکمہ موسمیات کے مطابق ابھی مزید بارشوں کا امکان ہے۔

ملک میں سیلاب اور مزید علاقوں کے زیر آب آنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔  محکمہ موسمیات نے اس ہفتے مون سون کی بارشوں کا امکان ظاہر کرتے ہوئے سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں موسلادھار بارشوں کی پیش گوئی بھی کر رکھی ہے۔ 

وزارت موسمیاتی تبدیلی نے یہ خدشہ بھی ظاہر کر رکھا ہے کہ رواں سال دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی سمیت شہری علاقوں کو بھی طوفانی بارشوں کے خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 

خلیج بنگال سے مون سون کی ہوائیں ملک کے بالائی اور وسطی علاقوں میں داخل ہو رہی ہیں۔ بارشوں سے راولپنڈی اور اسلام آباد، خیبر پختونخوا سے پشاور، نوشہرہ، مردان، مانسہرہ اور دیر کے نشیبی علاقے زیر آب آنے کا خدشہ ہے۔ 

14 جولائی 2022 کو مون سون ہوائیں صوبہ سندھ میں شدت کے ساتھ داخل ہوئیں۔

صوبہ سندھ میں کراچی، حیدر آباد، ٹھٹہ، بدین، جامشورو، میر پور خاص، شہید بینظیر آباد، دادو، عمر کوٹ، جیکب آباد، سکھر، لاڑکانہ کے علاقے زیر آب آنے کا خطرہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔

قبل ازیں وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن پاکستان میں 2010 جیسی سیلابی صورت حال کے خطرے سے آگاہ کر چکی ہیں جن میں انہوں نے پنجاب اور سندھ میں معمول سے کہیں زیادہ بارشوں کا بتایا تھا اور پاکستان میں کم از کم اگست تک مون سون بارشیں ہونے کا امکان ظاہر کیا تھا۔ 

محکمہ موسمیات نے پنجاب کے شہروں فیصل آباد، لاہور اور گجرانوالہ کے علاقے زیر آب آنے اور بلوچستان سے بولان، قلات، خضدار، لسبیلہ، کیرتھر، بارکھان، نصیر آباد، کوہلو، ژوب، سبّی اور ڈیرہ غازی خان کے پہاڑی اور مقامی ندی نالوں میں طغیانی کا خطرہ ظاہر کیا ہے۔ 

دوسری جانب مری، کشمیر، ہنزہ، استور، سکردو، دیامیر، گلیات اور چلاس میں لینڈ سلائڈنگ کا خدشہ بھی موجود ہے۔ 

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ماہر ماحولیاتی تبدیلی و قدرتی آفات فاطمہ یامین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’اس وقت سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب سیلاب جیسی صورت حال کا شکار ہیں۔ گلگت بلتستان میں متوقع بارشوں کے باعث چٹانیں اور لینڈ سلائیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘

’جو علاقے پہلے سے ہی نچلے سے درمیانے درجے کے سیلاب کا سامنا کر رہے ہیں ان پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ دریائے کابل اور چشمہ بیراج میں نچلے درجے کا سیلاب ہے اس لیے ملحقہ اضلاع اور تحصیلوں میں نچلے درجے کا سیلاب آئے گا۔‘

’تاحال جنوبی پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کچھ علاقے سیلابی صورت حال سے گزر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں صوابی، ڈیرہ اسماعیل خان، چارسدہ اور نوشہرہ سیلابی صورت حال سے گزر رہے ہیں کیونکہ یہ علاقے دریا کابل کے قریب ہیں۔‘

موسمیاتی تبدیلیاں علاقوں کی صورت حال کیسے متاثر کر سکتی ہیں؟

فاطمہ یامین کا کہنا ہے: ’سیلاب، ہیٹ ویو، گلاف (گلیشیئر کا پھٹنا) سمیت جنگلوں میں آگ لگ جانے جیسی موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کو متاثر کر رہی ہیں۔ معلومات تک رسائی کے باوجود ہم اس سال ایسے واقعات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم اس صورت حال سے نکل نہیں پائے تھے کہ اب سیلاب کی زد میں آ گئے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس سال سندھ اور بلوچستان میں بارشیں معمول سے بہت زیادہ ہیں۔ دنیا بھر سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافے کی وجہ سے ہم موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہیں۔‘

نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق میں گذشتہ ایک ماہ کے دوران بارشوں کے باعث ملک میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ 

وزیر اعظم شہباز شریف نے جمعرات کو بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں حالیہ مون سون بارشوں کے باعث سیلاب کی تباہ کاریوں، اور ریلیف کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی۔ 

اجلاس میں وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے بلوچستان کے سات اضلاع، کوئٹہ، قلعہ سیف اللہ، کیچ، کچھی، پشین، لورالائی اور ہرنائی، میں سیلابی صورت حال کا سامنا ہے۔

مجموعی طور پر صوبے میں 66 افراد جاں بحق اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے جبکہ 700 سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ 

خیبرپختونخوا کے زیادہ متاثرہ اضلاع میں صوابی، ڈیرہ اسماعیل خان، کرک، چترال اور دیر شامل ہیں۔ صوبے میں 33 افراد ہلاک اور 37 زخمی ہوئے ہیں جبکہ 400 کے قریب گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔

کیا منصوبہ بندی ممکن ہے؟ 

فاطمہ یامین کے مطابق  2010 کے سیلابی تجربے کے بعد دیکھنا ہوگا کہ ضلعی انتظامیہ سیلاب اور مون سون بارشوں کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر کیسے ہنگامی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ اس عمل سے جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے موضوع کو دنیا بھر میں سنجیدگی سے لیا جاتا ہے جبکہ اسے پاکستان میں غیر سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ذریعے ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ 

حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے؟ 

وزارت موسمیاتی تبدیلی اور محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے تمام صوبوں کو الرٹ رہنے کی ہدایات جاری کر رکھی ہیں جس کے بعد صوبوں کی جانب سے بھی ممکنہ سیلاب اور نقصان سے بچنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

دوسری جانب ملک میں مزید بارشوں کے امکان کے بعد وزارت موسمیاتی تبدیلی نے بھی قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی اور صوبائی محکموں کو ممکنہ تباہ کن اثرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کی ہدایات جاری کرتے ہوئے عملے اور وسائل کو متحرک کرنے کے ساتھ ضلع وار ہنگامی منصوبہ بندی کے لیے ہدایات جاری کردی ہیں۔ 

انڈپینڈنٹ اردو نے چئیرمین این ڈی ایم اے اختر نواز سے موقف لینے کے لیے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہو سکا۔

تاہم ادارے کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ این ڈی ایم اے نے وفاقی، صوبائی اور ضلعی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کو چوکس رہنےاور کسی بھی قسم کی ہنگامی صورت حال کے پیش نظر تیار رہنے اور ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

محکموں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ہنگامی آلات و مشینری بشمول نکاسی آب کے لیے پمپ اور ایمرجنسی عملے کی پہلے سے دستیابی یقینی بنائیں تاکہ ہنگامی حالات کی صورت میں فوری اقدامات کیے جا سکیں۔ اور، نشیبی و سیلابی خطرے سے دوچار علاقہ مکینوں کا پہلے سے طے شدہ محفوظ مقامات پر انخلا اور پناہ گاہوں میں خوراک و ادویات کی پیشگی دستیابی یقینی بنائیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات