واٹس ایپ پر موصول ہونے والی ایک ڈی این اے رپورٹ خیبر پختونخوا پولیس کو سکھ کا سانس لینے کی وجہ بن گئی اور ایک طویل اعصاب شکن 25 روز کی ملزم کی تلاش بالآخر اختتام کو پہنچی۔
اس تفتیش کی تفصیل انڈپینڈنٹ اردو کو ایس ایس پی آپریشن کاشف عباسی اور ایس پی انویسٹی گیشن کوکب فاروق نے بتائی جو چھ سیکنڈز کی ویڈیو کے بارے میں ہے جس کی مدد سے دو قتل اور تین ریپ کے ملزم کو گرفتار کیا گیا۔
پشاور کینٹ ایریا میں واقع ریلوے کالونی کے تھانہ شرقی میں رات 10 بجے ایف آئی آر درج ہوئی جس میں نذیر احمد نے موقف اختیار کیا کہ ان کی 11 سالہ صاحبزادی کو انہوں نے نسوار لانے کی عرض سے قریبی کریانہ سٹور بھیجا۔
جب دیر ہوئی وہ گھر نہیں لوٹی تو وہ پریشان ہو کر ماہ نور کی تلاش میں باہر نکلے۔ تھوڑی ہی دیر بعد معلوم ہوا کہ کسی نے اس کے گلے میں پھندا ڈال کر اسے قتل کر دیا اور نیم برہنہ حالت میں چھوڑ کر فرار ہوگیا ہے۔
بادی النظر میں یہ بچی سے زیادتی کا ایک عام واقعہ تھا اس لیے پولیس نے گلی محلے کے رشتہ داروں سے تفتیش شروع کر دی۔ مسئلہ فارنزک کا تھا کیوں کہ تفتیش کے آغاز سے قبل ہی ماہ نور کی لاش کو اٹھا کر گھر لے جایا گیا تھا اور واقعہ کے بعد جب لوگ جائے وقوعہ پر اکھٹے ہوئے تو رہے سہے شواہد بھی مٹ گئے گئے تھے۔
تفتیشی پولیس نے ارد گرد سی سی ٹی وی ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ واقعہ سنگین نوعیت کا تھا اس لیے اہل علاقہ نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے احتجاج کیا۔
کچھ دن بعد گلبرگ میں ایک اور پانچ سالہ بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی لیکن بچی زندہ بچ گئی تھی۔
بچی کا طبی معائنہ کیا گیا جس کے پیمپر سے ملزم کا ڈی این اے لیا گیا۔ پولیس کو ایک سی سی ٹی فوٹیج ملی لیکن ملزم نے پوری واردات میں چہرہ کپڑے سے ڈھانپ رکھا تھا۔
جدید تکنیک سے مدد لینے کی کوشش کی گئی لیکن واردات کے وقت عمارت میں کوئی موبائل فون نہیں تھا۔
سی سی ٹی وی میں صرف اتنا نظر آ رہا تھا کہ ملزم 10 جولائی کو 10 بج کر 47 منٹ پر بچی کو ایک عمارت کے تہہ خانے کی طرف کے کر جا رہا تھا۔ ملزم کی پشت تھی کیمرے کی طرف اور ملزم کے جسم کا زیریں حصہ یعنی صرف بایاں پیر نظر آیا اور وہ بھی صرف ایک سیکنڈ کے لیے۔
11 بجے کے لگ بھگ وہ اکیلا تہہ خانے سے نکلا جس کے بعد بچی باہر نکلی۔ گویا ملزم نے اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔
صرف چھ سیکنڈ پشاور پولیس کا کل اثاثہ تھے۔ بس وہی وڈیو بار بار دیکھتے رہے۔ آخر میں ملزم کے پیر یعنی جوتے ہی بچے تھے تفتیش کے لیے۔
اس لیے ساری تفتیشی ٹیم لگا دی گئی کہ گلبرگ میں واقع اس عمارت کے ارد گرد جتنی بھی سی سی ٹی وی فوٹیج تھی وہ نکالی گئیں اور اس مبہم وجود اور جوتوں کا پیچھا کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملزم جہاں جہاں جاتا تھا کہیں نہ کہیں نظر آ جاتا تھا۔ دو ہزار گھنٹوں پر محیط سینکڑوں کیمروں کی فوٹیج دیکھی گئی اور پھر پشاور پولیس کو ملزم ہشت نگری کے قریب ایک انڈر پاس سے گزرتا نظر آیا۔
یہاں سے پھر کیمروں نے اس کا پیچھا کیا۔ ان ہی فوٹیجز میں چلتے وہ کالے کپڑوں میں ملبوس ایک شخص سے ملتا ہے۔ ملاقات سے ایسے لگا گویا یہ شخص ملزم کا سہولت کار تھا۔
وہ دونوں ساتھ سفر کرتے ہوئے صدر تک پہنچے اور ایک دکان سے حلوہ پوری خریدی۔ اس شخص کے ساتھ قربت دیکھتے ہوئے اس مشکوک شخص کا کیمروں سے پیچھا کیا گیا۔
لیکن اس دوران پشاور صدر میں واقع کالی باڑی میں ایک اور بچی کی لاش ملی۔ سات سالہ بچی کو اس وقت شکار کیا گیا جب وہ تندور سے روٹیاں لانے نکلی تھی۔
پوسٹ مارٹم کیا گیا تو پہلے ملزم کا ڈی این اے میچ ہوا۔ بظاہر پولیس کا ایک سیریل ریپسٹ اور کلر سے پالا پڑا تھا؟ کیا ان واقعات کے پیچھے ایک منظم گینگ تھا؟ کیا ملزم ذہنی مریض ہے؟ کیا ملزم کسی خاص وجہ سے خاص بچیوں کو نشانہ بنا رہا ہے؟
ایسے ہزاروں سوالات پشاور پولیس کا پیچھا کر رہے تھے۔ اس ایک ملزم کی تلاش میں 100 سے زیادہ لوگوں کو شامل تفتیش کیا گیا تھا۔ کبھی وہ کسی خاتون گداگر سے مل رہا ہے اور کبھی وہ بچیوں پر حملوں کی ناکام کوشش کرتا دکھائی دیا۔ ڈی این اے نمونے اکھٹے کیےگئے۔
پھر وہ لمحہ آیا کہ بادل تھوڑی دیر کو چھٹ گئے۔ ملزم کے مبینہ سہولت کار اور مشکوک ساتھی کو ایک جگہ پر فون پر بات کرتے دیکھا گیا۔
پولیس نے فوراً جیوفنسنگ کرکے ہزاروں فون کالز میں سے سڑک کے بیچوں بیچ فون پر بات کرنے والے نامعلوم شخص کو شناخت کرلیا۔
یہ عمر حیات تھے۔ پولیس نے فوراً ان کو حراست میں لیا۔ ان سے تفتیش کی گئی تو وہ خود تو ان تمام معاملات سے لاعلم تھے لیکن ملزم کی شناخت سہیل عرف حضرت علی عرف ملنگ کے نام سے کی جو پشاور کے نواحی علاقے سفید ڈھیری کے رہائشی تھے۔
20 سالہ ملزم صدر میں ہی خواتین کے کپڑوں پر زری کا کام کرتا تھا۔ وہ 15 بہن بھائیوں میں 13ویں نمبر پر تھا۔
ملزم نے پاکستان کے مختلف شہروں میں دردر کی خاک چھانی تھی اور اتوار کو چٹھی کے باعث وہ یہ وارداتیں کرتا تھا۔ ملزم نے اپنی والدہ کو دو دفعہ مارنے کی کوشش کی تھی۔
حراست میں لے کر جب ملزم کو بتایا گیا کہ گلبرگ میں اس کے ظلم کا شکار بچی زندہ ہے تو حیرت سے بولا ’اچھا تو وہ زندہ ہے‘۔
اس نے بتایا کہ وہ جان بوجھ کر موبائل نہیں رکھتا اور بھیس بدلتا رہتا تھا جو اس نے ایک ناول سے سیکھا تھا۔ تاہم تینوں وارداتوں میں اس نے جوتوں کا ایک ہی جوڑا استعمال کیا۔
پولیس نے ملزم کا ڈی این اے لاہور میں واقع فارنزک لیبارٹری بھیجا۔ 24 جولائی کا اتوار بغیر کسی ناخوشگوار واقعہ کے گزرا یعنی پولیس نے صحیح بندے کو حراست میں لے لیا تھا۔
27 جولائی کو بالآخر پولیس حکام کاشف عباسی اور کوکب فاروق کو ڈی این اے رپورٹ مل گئی۔ ڈی این اے رپورٹ نے تصدیق کر دی۔ آئی جی خیبر پختونخواہ کو فوراً خبر دی گئی جو مسلسل اس کیس کی نگرانی کر رہے تھے۔
پشاور پولیس کے لیے تین جولائی سے 27 جولائی کے یہ 25 روز کٹھن تھے لیکن ان 25 دنوں کی کامیابی کا آغاز 10 جولائی کے ان چھ سیکنڈز کی سی سی ٹی وی سے ہوا تھا۔