’جب سے سیلاب آیا ہے میں بہت کمزور ہو گئی ہوں۔ کھانے کو کچھ نہیں ہے، اگر تھوڑا بہت ہے بھی تو اپنے بچوں کو دے دیتے ہیں۔ میری صحت بھی کمزور ہے۔ ایسا لگ رہا ہے پیٹ میں میرا بچہ بھی نہیں پل رہا۔‘
یہ کہنا تھا بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کی 21 سالہ رہائشی زاہدہ کا جو تقریباً سات ماہ کی حاملہ ہیں۔
ملک کے بیشتر علاقوں میں گذشتہ 15 روز سے سیلاب کا پانی کھڑا ہے۔ حکومت نے پانی سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ بھی ظاہرکیا ہے جس سے حاملہ خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔
ایسی ہی خواتین میں ضلع جعفر آباد کی زرینہ بھی ہیں جن کی آنکھوں کے گرد نیند اور خوراک کی کمی کے باعث حلقے بنے ہوئے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کا خاندان اپنے جانوروں کے ساتھ سڑک پر بیٹھا ہوا ہے جس سے مزید بیماری پھیل سکتی ہیں، اور ایسی صورت حال میں انہیں ڈر ہے کہ کہیں حمل ضائع نہ ہو جائے۔
بلوچستان میں ایک لاکھ سے زیادہ حاملہ خواتین
اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل چلڈرن ایمرجنسی فنڈ (یونیسف) کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لاکھوں حاملہ خواتین اور بچے خطرے میں ہیں جنہیں فوری طور پر امداد کی ضرورت ہے۔
بلوچستان حکومت کے مطابق حالیہ سیلاب سے صوبے کے 91 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کو اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) پاکستان کی جانب سے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق بلوچستان میں حاملہ خواتین کی تعداد تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار ہے جن میں سے 20 ہزار کے قریب خواتین کے ہاں اگلے ماہ بچوں کی پیدائش متوقع ہے۔
یو این ایف پی اے کے مطابق قدرتی آفات میں اوسطاً خواتین کا مردوں کی نسبت جان سے چلے جانے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔
ضلع جعفر آباد کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹرز ہسپتال کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا ہے کہ بلوچستان کے زیادہ تر افراد غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسے میں آنے والے دنوں میں حاملہ خواتین میں غزائی کمی سب سے بڑا مسئلہ ہوگا۔
ٹارچ کی روشنی میں خواتین کی ڈیلیوری
ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹرز ہسپتال کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ نے بتایا کہ سیلاب کے بعد بجلی اور جنریٹر کی سہولیات نہ ہونے کے باعث ان کے ہسپتال میں تقریباً چار روز تک ٹارچ کی روشنی میں خواتین کی ڈیلیوری ہوتی رہی۔
’حاملہ خواتین کو خاص طور پر کافی مسئلے درپیش ہیں۔ ڈیرہ اللہ یار شہر میں ڈی ایچ کیو ہسپتال ایک لاکھ دس ہزار افراد کی آبادی کو کور کرتا ہے۔ سیلاب کے باعث زیادہ تر خواتین کی ڈیلیوری رسائی نہ ہونے کے باعث دیہات میں ہی ہوئی ہیں۔‘
ڈی ایچ کیو میں زیر علاج گل زادی نامی خاتون کے مطابق ’سرکاری ہسپتال میں پیسے لے کر ان کی ڈیلیوری کی گئی۔ یہاں بجلی یا پانی بھی موجود نہیں ہے۔‘
ضلع جعفر آباد کی آبادی پانچ لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل ہے لیکن شہریوں کے مطابق وہ ہنگامی حالات میں ضلع کو دیکھنے والے ڈی ایچ کیو ہسپتال کے بجائے لاڑکانہ کے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں جو جعفر آباد سے تقریباً 120 کلومیٹر دور ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ضلع صحبت پور سے تعلق رکھنے والی زاہدہ سڑک کنارے اپنے آٹھ بچوں کے ہمراہ درخت تلے خود ساختہ کپڑے کے خیمے میں بیٹھی ہیں جہاں ان کی چھ ماہ کی بیٹی کا پورا جسم کہیں کہیں سے پھولا ہوا تھا۔
زرینہ کے مطابق بچی کو سیلاب کے پانی سے جلد کی بیماری لاحق ہو گئی اور علاقے میں میڈیکل کیمپ نہ ہونے کے باعث وہ ڈاکٹر کو نہیں دکھا پائیں۔
بلوچستان میں صحت کا نظام ہمیشہ سے ہی کافی کمزور سمجھا جاتا ہے، لیکن حالیہ سیلاب کے بعد صورت حال کشیدگی اختیار کر سکتی ہے۔
بلوچستان حکومت کے مطابق سیلاب سے قبل 20 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار تھے اور سیلاب کے بعد یہ اعداد و شمار خطرناک حد تک بڑھ سکتے ہیں۔
بلوچستان کی وزارت صحت کے سیکرٹری حافظ طاہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سیلاب نے ملک کے تمام صوبوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے، ایسے میں وفاقی حکومت سے امداد کی توقع کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔
’جتنا ہو سکے حکومت مدد کر رہی ہے لیکن سیلابی صورت حال میں ڈونر جیسے کہ عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف پلاننگ کے تحت مدد کی جا سکتی ہے۔ اس سے خواتین میں غذائی کمی اور خون کی کمی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔‘
یو این ایف پی اے کے پاکستان کے نمائندے ڈاکٹر بختیار قادروو کے مطابق ’حمل اور بچے کی پیدائش ہنگامی حالات یا قدرتی آفات کے ختم ہونے کا انتظار نہیں کر سکتی۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک عورت اور بچہ کمزور ہوتے ہیں اور انہیں سب سے زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔‘