چیف جسٹس کے خطاب پر سپریم کورٹ کے دو سینیئر ججوں کو تحفظات

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’سپریم کورٹ تنہا چیف جسٹس پر مشتمل نہیں بلکہ اس میں تمام جج شامل ہیں۔‘

چیف جسٹس آف پاکستان کے خطاب پر ردعمل میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے خط لکھا (تصاویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ)

پاکستان میں نئے عدالتی سال کے آغاز پر چیف جسٹس آف پاکستان کے خطاب پر جسٹس قاضی فائر عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے خط لکھ کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے چیف جسٹس کو لکھے اپنے خط میں اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’سپریم کورٹ تنہا چیف جسٹس پر مشتمل نہیں بلکہ اس میں تمام جج شامل ہیں۔ چیف جسٹس نے زیر سماعت مقدمات پر تبصرہ کیا جو پریشان کن تھا۔‘

مشترکہ خط میں لکھا گیا ہے کہ ’چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے فیصلوں اور ان پر تنقید کا جواب دیا اور یکطرفہ بات کی۔‘

’چیف جسٹس نے بار عہدیداروں کے متعلق اہانت آمیز باتیں کیں اور سیاسی پارٹی بازی کا الزام لگایا۔ بار عہدیداروں نے فل کورٹ کی درخواست کی تھی، آئین سپریم کورٹ سے فیصلہ دینے کا تقاضا کرتا ہے۔‘

خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ ’چیف جسٹس نے کہا جوڈیشل کمیشن نے چیئرمین کے امیدواروں کی منظوری نہیں دی اور الزام وفاقی حکومت کے نمائندوں پر لگا دیا۔‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کی جانب سے لکھے گئے خط میں مزید تخفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کی تعمیل کی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ چیف جسٹس پر ہے۔ چیف جسٹس کو زیب نہیں دیتا کہ وہ جوڈیشل کمیشن کے ارکان پر حملہ کریں۔‘

’جوڈیشل کمیشن کے چار ارکان نے چیف جسٹس کے امیدواروں کی حمایت نہیں کی۔ اجلاس کو پہلے سے طے شدہ کہنا اور ملتوی کیے جانے کا تاثر دینا بھی غلط ہے۔ چیئرمین جوڈیشل کمیشن ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔‘

انہوں نے کہا کہ آئین لازم کرتا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کل ارکان کی اکثریت سے ججز تعینات کرے۔ ایک تہائی سے زیادہ سپریم کورٹ خالی پڑے ہے، اسے معذور نہیں چھوڑا جا سکتا۔

’جب چیف جسٹس اپنی تقریر کر رہے تھے تو اس وقت ہم دونوں جج ان کے دائیں اور بائیں جانب بیٹھے تھے لیکن تقریب کے وقار کے تحفظ کی خاطر ہم چیف جسٹس کے خطاب کے دوران خاموش رہے۔ ہماری خاموشی کو غلط مفہوم پہناتے ہوئے رضامندی سے تعبیر نہ کیا جائے۔ چیف جسٹس کی تقریر کی اشاعت میڈیا پر بڑے پیمانے پہ ہوئی اس لیے ہم وضاحت دینے پر مجبور ہوئے۔‘

چیف جسٹس کا خطاب کیا تھا؟

بارہ ستمبر کو نئے عدالتی سال کی فل کورٹ تقریب سے چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’ہم پالیسی معاملات میں عمومی طور پر مداخلت نہیں کرتے لیکن لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ایسے مقدمات بھی سننے پڑتے ہیں۔‘

’مارچ 2022 سے ہونے والے سیاسی ایونٹس کی وجہ سے سیاسی مقدمات عدالتوں میں آئے ہیں۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ پر ججز کی مشاورت سے ازخود نوٹس لیا۔ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف پانچ دن سماعت کرکے رولنگ کو غیر آئینی قرار دیا۔‘

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کا فیصلہ بھی تین دن میں سنایا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیف جسٹس نے تنقید پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ دوست مزاری کی رولنگ کو کالعدم قرار دینے پر سیاسی جماعتوں نے سخت ردعمل دیا۔ سیاسی جماعتوں کے سخت ردعمل کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔

ججز کی تقرری پر چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ ’ججز کی تقرریوں کے معاملے میں بار ایسوسی ایشنز کی معاونت درکار ہے۔‘

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے مقدمے کا فیصلہ میرٹ پر ہوا، اس مقدمے میں وفاق نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی جو قانون کے مطابق نہیں تھی جبکہ اس مقدمے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کردار بھی جانبدارانہ رہا۔‘

’اس مقدمے کے فیصلے کا ردعمل ججز کی تقرری کے لیے منعقدہ اجلاس میں سامنے آیا۔‘

چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں مزید کہا تھا کہ چارج سنبھالتے ہوئے سستا اور فوری انصاف کی فراہمی، زیر التوا مقدمات اور از خود نوٹس کے اختیارات کا استعمال جیسے چیلنجز درپیش تھے۔

’خوشی ہے کہ زیر التوا مقدمات کی تعداد 54134 سے کم ہو کر 50265 تک پہنچ گئی ہے۔ صرف جون سے ستمبر تک 6458 مقدمات کا فیصلہ کیا گیا۔ زیر التوا مقدمات کی تعداد میں کمی نے گذشتہ دس سالہ اضافے کے رجحان کو ختم کیا۔‘

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ فراہمی انصاف کے متبادل نظام سے یقین ہے کہ زیر التوا مقدمات میں 45 فیصد تک کمی آئے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان