پشاور: سردیوں سے قبل گیس کی ’لوڈشیڈنگ‘ سے شہری پریشان

پشاور کے شہریوں کے لیے موسم سرما میں گیس کے پریشر میں کمی ایک معمول کی سرگرمی ہے لیکن گرمیوں میں قدرتی گیس کا پریشر کم آنا بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کی بات ہے۔

پاکستان گزشتہ کئی مہینوں سے ایل این جی (مائع گیس) درآمد کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن بین الاقوامی منڈی میں قیمتیں زیادہ ہونے کے باعث ایسا ممکن نہیں ہو پا رہا (اے ایف پی فائل )

’پہلے سردیوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کا رونا ہوتا تھا، لیکن اب تو گرمی میں بھی گیس نہیں آ رہی، اور مجبورا ایل پی جی (مائع گیس) استعمال کرنا شروع کر دی ہے۔‘

یہ کہنا تھا کہ پشاور کے علاقے گلبرگ سے تعلق رکھنے والے شاہد علی کا جو گذشتہ تین مہینوں سے قدرتی (سوئی) گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پریشان ہیں۔

شاہد نے بتایا کہ ان کے گھر میں گیس کا میٹر لگا ہوا ہے، بل بھی باقاعدگی سے آتا ہے، جو ادا بھی کیا جاتا ہے، لیکن گیس نہیں آتی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں شاہد نے کہا کہ ’صبح اٹھتے ہیں تو گیس کا پریشر اتنا کم ہوتا ہے کہ ناشتہ بھی تیار نہیں کیا جا سکتا، اور اب مجبوراً ایل پی جی (مائع گیس) کا سلنڈر گھر میں رکھا ہوا ہے، جو ایمرجسنی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔‘

پشاور کے رہائشی کا کہنا تھا کہ ’دن کے علاوہ رات کے نو دس بجے کے بعد بھی گیس غائب ہو جاتی ہے، جبکہ متعلقہ سرکاری محکمہ (ایس این جی پی ایل) اس کی کوئی معقول وجہ بھی نہیں بتا رہا۔‘ 

صوبہ خیبر پختونخوا میں صوبائی دارالحکومت کے مختلف علاقوں میں گذشتہ دو تین مہینوں سے گیس کے پریشر میں کمی، جسے عرف عام میں گیس کی لوڈشیڈنگ کہا جاتا ہے، عوام کے لیے پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔

پشاور کے موسم سرما میں گیس کے پریشر میں کمی ایک معمول کی سرگرمی ہے، اور شہری اس کے عادی ہو چکے ہیں، لیکن گرمیوں میں قدرتی گیس کا پریشر کم آنا بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کی بات ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے گیس لوڈشیڈنگ کی وجہ جاننے کے لیے خیبر پختون خوا کو قدرتی گیس فراہم کرنے کے ذمہ ادارے سوئی نادرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کے چھ عہدے داروں سے بات  کرنے کی کوشش کی لیکن کسی نے ادارے کا موقف پیش نہیں کیا۔ 

ایس این جی پی ایل کے ترجمان امجد اکرام نے انڈپینڈنٹ اردو کے دریافت کرنے پر بتایا کہ پشاور میں حالیہ دنوں میں گیس کی کوئی لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی ہے۔ 

گرمی میں گیس لوڈ شیڈنگ کی وجہ؟

 ایس این جی پی ایل کے ترجمان یا تو پاکستان میں ایندھن کی کمی کے مسئلے سے بے خبر ہے، اور یا انھوں نے اس حوالے سے ایس این جی پی ایل کے متعلقہ افسران سے بات کیے بغیر ادارے کا موقف بیان کر دیا۔

پاکستان میں گذشتہ کئی مہینوں سے ایل این جی (لیکیوفائڈ نیچرل گیس) یا مائع قدرتی گیس درآمد نہیں ہو رہی ہے اور وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم محمد مصدق ملک کے مطابق اس کی بڑی وجہ یوکرین تنازعے کے باعث عالمی منڈی میں ایل این جی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ 

مئی کے بعد سے پاکستان عالمی منڈی میں ایل این جی کے لیے مختلف ٹینڈرز فلوٹ کر چکا ہے، لیکن ابھی تک کسی کمپنی نے مناسب قیمت پر مائع گیس کی فراہمی کی پیشکش نہیں کی۔

 مصدق ملک نے رواں سال جون میں کراچی میں میڈیا کے گفتگو میں کہا تھا کہ ’یوکرین جنگ کے باعث ایل این جی کی ڈیڑھ سال پہلے والی چار ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ کی قیمت اب 40 ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سب یوکرین جنگ کی وجہ سے ہوا اور پاکستان اتنی مہنگی ایل این جی خریدنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انگریزی روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ایل این جی کی خریداری کے لیے مئی اور جون کے دوران فلوٹ کیے گئے ٹینڈرز کا بین الاقوامی کمپنیوں سے کوئی مثبت جواب موصول نہیں ہوا۔

رپورٹ کے مطابق ایل این جی کی در آمد نہ ہونے کے باعث پاکستان کو ایندھن کی کمی کا سامنا ہے، جس کے باعث ملک میں 10 سے 16گھنٹے کے لیے گیس کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔

امریکی ادارہ انسٹی ٹیوٹ برائے انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل اینالسز (آئی ای ای ایف اے) کی جون میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان خود ایک قسم کی گیس کو دوسری میں تبدیل کرنے کے بجائے 60 کروڑ امریکی ڈالر خرچ کر کے اپنی گیس سے مہنگی ایل این جی درآمد کرتا ہے، اور یہ اخراجات 2030 تک 32 ارب ڈالر پہنچنے کا امکان ہے۔

اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے لیے بین الاقوامی منڈی سے ایل این جی کا بروقت حصول بھی قابل اعتبار نہیں ہے۔

آئی ای ای ایف اے کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ یوکرین جنگ کے باعث اجناس کی عالمی مارکیٹ میں غیر معمولی تیزی سے پاکستان کی کمزور صورت حال مزید خراب ہو رہی ہے، جبکہ کوویڈ کی وبا کے بعد پیدا ہونے والی مہنگائی سے پاکستان امیر ممالک کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔

امریکی ادارے کی رپورٹ نے پاکستان میں گیس کے نظام میں پہلے سے موجود مختلف مسائل کی نشاندہی بھی کی، جن میں ایل این جی کی بین الاقوامی منڈی سے خریدنے اور اندرون ملک صارفین کو فروخت کرنے کے نرخوں میں فرق، سبسڈی، اور فراہمی کے دوران ضائع ہونے والی گیس کے مسائل کو قرار دیا گیا ہے۔  

گھریلو صارفین کے علاوہ پاکستان میں ایندھن کی کمی کے باعث مختلف سیکٹرز متاثر ہو رہے ہیں، جن میں صنعتیں اور خصوصاً کپڑا بنانے کے کارخانے سر فہرست ہیں۔  

پاکستانی ادارے انسٹی ٹیوٹ فار فنانشل منیجمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوری میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ٹیکسٹائل ملز کو دو ہفتوں سے زیادہ عرصے تک بند رکھا گیا، جس کے نیتجے میں 25 کروڑ امریکی ڈالر کی برآمدات یا ٹیکسٹائل شعبے کی 20 فیصد سالانہ آمدنی کا نقصان ہوا۔

پاکستان میں ایندھن بشمول قدرتی گیس کی کمی کے باعث نہ صرف شاہد جیسے گھریلوں صارفین بلکہ ملک کی ترقی کے لیے اہم شعبوں کی کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت