ورلڈ کپ: شاہین شاہ آفریدی کی واپسی اور ون ڈاؤن کا مسئلہ

پاکستان ٹیم اپنا پہلا وارم اپ میچ برسبین میں انگلینڈ کے خلاف 17 اکتوبر کو اور دوسرا افغانستان کے خلاف 19 اکتوبر کو کھیلےگی۔

شاہین آفریدی 15 جولائی 2022 کو گال انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم میں سری لنکا کے خلاف پہلے ٹیسٹ کرکٹ میچ سے قبل پریکٹس سیشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ شاہین کی فٹنس کا درست اندازہ ورلڈ کپ وارم اپ میچ سے ہی ہوگا (اے ایف پی/ ایشارا ایس کوڈیکارا)

آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے آغاز میں اب چند روز ہی رہ گئے ہیں۔ مقابلے میں حصہ لینے والی ٹیمیں آسٹریلیا کا رخ کر رہی ہیں۔ بعض نے وارم اپ میچ کھیلنا بھی شروع کر دیے ہیں۔

پاکستان ٹیم اس وقت نیوزی لینڈ میں سہ فریقی سیریز کھیل رہی ہے۔ اس سیریز کے فائنل تک پہنچنے کی صورت میں وہ جمعے کی شام فائنل کھیل کر ملبورن کے لیے روانہ ہو جائے گی جہاں اگلے دن کپتان بابر اعظم کیپٹن ڈے کی تقریب میں شرکت کریں گے۔

کیپٹن ڈے پہلی مرتبہ آئی سی سی کی جانب سے منعقد کیا جارہا ہے جس میں ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی تمام ٹیموں کے کپتان شریک ہوں گے اور میڈیا کے سوالات کے جواب دیں گے۔

پاکستان ٹیم اپنا پہلا وارم اپ میچ برسبین میں انگلینڈ کے خلاف 17 اکتوبر کو اور دوسرا افغانستان کے خلاف 19 اکتوبر کو کھیلےگی۔ ٹیم 20 اکتوبر کو ملبورن پہنچ جائے گی جہاں 23 اکتوبر کو انڈیا کے خلاف پہلا میچ کھیلے گی۔

پاکستان کے سٹار بولر شاہین شاہ آفریدی بھی برسبین پہنچ کر ٹیم میں شامل ہوجائیں گے۔ ان کی صحمت مکمل بحال ہوچکی ہے۔ شاہین شاہ آفریدی گذشتہ جون میں سری لنکا کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ کے دوران زخمی ہوئے تھے اور تب سے وہ ٹیم سے باہر ہیں۔

شاہین شاہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اپنی بولنگ کے جوہر دکھانے کے لیے بے چین ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اب مکمل فٹ ہوچکے ہیں اور وہ روزانہ 8-10 اوورز کا سپیل کر رہے ہیں۔ بقول ان کے اب انہیں کوئی تکلیف نہیں ہے لیکن ان کے مینٹور عاقب جاوید انہیں فوری طور پر کھلانے کے مخالف ہیں اور زور دے رہے ہیں کہ وہ مزید آرام کریں۔

سابق فاسٹ باؤلر شعیب اختر بھی کچھ ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں شاہین ابھی مکمل فٹ نہیں ہوئے ہیں۔

ون ڈاؤن کا مسئلہ

پاکستان ٹیم کے پاس 15 اکتوبر تک کا وقت ہے جب تک وہ ٹیکنیکل بنیادوں پر اپنے سکواڈ میں کوئی تبدیلی کرسکتی ہے۔

پاکستان نے ایشیا کپ میں بری کارکردگی کے بعد فخر زمان کو ٹیم سے فارغ کر کے شان مسعود کو ان کی جگہ شامل کیا تھا لیکن انگلینڈ کے ساتھ سات میچوں کی سیریز میں پہلے تو حیدر علی ون ڈاؤن کھیلے اور پھر شان مسعود آ گئے۔

شان مسعود اب نیوزی لینڈ کے خلاف بھی تیسرے نمبر پر کھیل رہے ہیں لیکن ان کی کارکردگی قابل ذکر نہیں ہے۔ ایک میچ میں کچھ رنز کرتے ہیں تواگلے میچ میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

مڈل آرڈر میں حیدر علی بھی مسلسل ناکام ہیں۔ انہیں مسلسل کھیلتا دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کے علاوہ کوئی اور کھلاڑی ہی نہیں ٹیم کے پاس تبدیل کرنے کے لیے۔

ان دونوں کی بری کارکردگی کے بعد ناقدین فخر زمان کو واپس لانے کی بات کر رہے ہیں۔ وہ آسٹریلین وکٹوں پر زیادہ کامیاب ہوسکتے ہیں جہاں گیند اونچا آتا ہے اور فخر زمان ایسی ہی گیندوں پر بظاہر اچھا کھیلتے ہیں۔

پاکستانی مڈل آرڈر بیٹنگ جس طرح نیوزی لینڈ کے خلاف دوسرے میچ میں ناکام ہوئی اس نے امیدوں کے چراغ جلنے سے پہلے ہی بجھا دیے ہیں۔ کرائسٹ چرچ کی وکٹ پر دوسرے درجے کے کیوی سپنرز کے خلاف پاکستانی بلے بازوں کی گھبراہٹ معنی خیز تھی۔

پاکستان نے جن دو بلے بازوں کو سپر ہٹر قرار دیا ہوا ہے ان کی سست بیٹنگ نے سارے دعوے ہوا میں اڑا دیے ہیں۔ افتخار اور آصف علی جس طرح کھیل رہے تھے اس سے لگتا تھا کہ ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔

اسی پچ پر کیوی بلے بازوں نے بےخوف وخطر بیٹنگ کی۔ قدموں کا بہترین استعمال کیا اور 16 اوورز میں ہی 131 کا ہدف حاصل کر لیا۔

اس میچ میں بابر اعظم کی کپتانی پر بھی سوالات اٹھے ہیں۔ بابر نے پاور پلے میں روایتی انداز سے ہٹ کر سپنرز کو بولنگ نہیں دی جس سے کیوی بلے بازوں نے اطمینان سے بیٹنگ کی۔

پاکستان کی فاسٹ بولنگ بھی حارث رؤف کی غیرموجودگی میں بے اثر نظر آئی۔ نسیم شاہ اور محمد حسنین کیوی بولرز کی طرح اپنی بولنگ میں ورائٹی نہ لاسکے اور خالی ہاتھ ہی رہے۔

پاکستان انتظامیہ پر شعیب ملک اور فخر زمان کو شامل کرنے کا بہت دباؤ ہے لیکن پی سی بی کے چیئرمین اس تبدیلی کے خلاف ہیں۔ وہ اسی ٹیم سے ساری توقعات دل میں بسائے بیٹھے ہیں تاہم فخر زمان کی شمولیت کے بہت حد تک امکانات ہیں اور اس کے لیے خوشدل شاہ یا حیدر علی کو واپس بھیجا جا سکتا ہے۔

سیمی فائنل کے امکانات

اگر پاکستان کا گروپ دیکھا جائے تو قدرے آسان نظر آتا ہے۔ پاکستان کو بھارت اور ساؤتھ افریقہ سے سخت مقابلہ کا سامنا ہے جبکہ بنگلہ دیش اور دو ٹیمیں کوالیفائنگ راؤنڈ سے نسبتا آسان نظر آتی ہیں۔

توقع ہے کہ ویسٹ انڈیز اور نمیبیا پاکستان کے گروپ میں پہنچیں گی۔

ویسٹ انڈیز ہی قابل ذکر ٹیم ہے جو کسی بھی وقت کچھ کرسکتی ہے لیکن حالیہ کارکردگی دیکھتے ہوئے کوئی بڑا اپ سیٹ نظر نہیں آتا ہے۔

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ساؤتھ افریقہ نے انڈیا کے ساتھ حالیہ سیریز میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے ماسوائے کل کے میچ جہاں وہ اپنی اننگز میں سو رنز بھی اکٹھے نہیں کر سکی۔ لیکن پاکستان کی بولنگ بھارت کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے اس لیے پاکستان فیورٹ ہوسکتا ہے۔

بنگلہ دیش کے ساتھ پاکستان آخری گروپ میچ ایڈلیڈ میں کھیلے گا جو گروپ پوزیشن پر زیادہ فرق نہیں ڈالے گا۔

پاکستان کے دو میچ پرتھ میں بھی ہوں گے جو ویسٹ انڈیز اور نمیبیا کے ساتھ ہونے کا امکان ہے۔ پرتھ کی پچ تیز اور فاسٹ بولنگ کے لیے سازگار ہوتی ہے جس کا فائدہ پاکستان کو ہوگا لیکن پاکستانی بیٹنگ کا بھی وہاں امتحان ہو گا۔

پاکستان ٹیم کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ شاداب خان نے نمبر 4 پر اچھی بیٹنگ کی ہے۔ ان کے لیے ہم شروع سے کہتے رہے ہیں کہ وہ نمبر 4 پر کھیلیں زیادہ کامیاب ہوں گے۔ شاید اب مینیجمنٹ کو احساس ہوگیا ہے کہ شاداب کو ٹاپ آرڈر میں کھلایا جائے۔

بابر اور رضوان کی اوپننگ جوڑی ابھی بھی بیٹنگ کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے اور ذمہ داری سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ ورلڈ کپ میں بھی یہی اہم کردار ادا کر پائے گی؟ تاہم ناقدین اوپننگ جوڑی کے سٹرائیک ریٹ پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔

بھارت کے ساتھ اہم میچ میں شاہین شاہ کے آ جانے سے پاکستانی ٹیم کو تقویت ملی ہے۔ اگر شاہین مکمل فٹ ہیں تو بھارتی ٹیم کی بیٹنگ ایک بار پھر تہس نہس کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں بہت جلد لائن اینڈ لینتھ حاصل کرنا ہوگی۔ ان کی فٹنس کا درست اندازہ وارم اپ میچ سے ہی ہوگا۔

ورلڈ کپ سے پہلے نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کو تیاریوں کی سیریز کا نام دیا گیا تھا لیکن سیریز نے ٹیم کی کمزوریاں مزید عیاں کر دی ہیں اور پاکستان کیمپ کو متفکر کر دیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ