شمالی علاقہ جات میں زیر زمین سے آوازیں اور لینڈ سلائیڈنگ

پاکستان کے شمالی علاقہ جات ارضیاتی طور پر دنیا میں سب سے زیادہ متحرک اور غیر مستحکم علاقے ہیں، اسی وجہ سے یہاں لینڈ سلائیڈنگ ہوتی رہتی ہیں اور مشکلات کا باعث بنتی ہیں۔

وادی ہنزہ میں 26 اکتوبر 2015 کو آنے والے شدید زلزلے کے نتیجے میں ہونے والی لینڈ سلائیڈ (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

ارضیاتی طور پر پاکستان کے شمالی علاقہ جات دنیا میں سب سے زیادہ متحرک اور غیر مستحکم علاقے ہیں، اسی وجہ سے یہاں لینڈ سلائیڈنگ ہوتی رہتی ہیں، جن کے باعث رہائشی براہ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر ہوتے ہیں۔

ابھی حال ہی میں ہنزہ کے سب ڈویژن گوجال کے گاؤں گلمت اور شیش کٹ کے رہائشیوں کے جو بیانات سامنے آئے، ان کے مطابق انہیں چند ہفتوں سے زیر زمین سے آوازیں سنائی دے رہی ہیں اور کئی بار آوازوں کے ساتھ ہلکے جھٹکے بھی محسوس ہوتے ہیں۔

 مقامی افراد کو ان آوازوں اور جھٹکوں کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے لیکن وہ نہایت خوف کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

2010 میں بھی جب عطا آباد جھیل وجود میں آئی تھی تو اس گاؤں کے رہائشیوں نے بتایا تھا کہ انہیں زیر زمین سے آوازیں آتی ہیں اور جھٹکے محسوس ہوتے ہیں۔

ایک تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 1998 سے 2017 تک دنیا بھر کے پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور اس سے جڑے خطرات سے 48 لاکھ افراد متاثر ہوچکے ہیں اور 18 ہزار اموات ہوئی ہیں۔

پاکستان کے شمالی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ ایک عام بات ہے۔ شمالی علاقہ جات میں ہنزہ نگر منفرد ارضیاتی فیچرز کے لیے مشہور ہے۔ ہنزہ نگر میں وادیاں اور کٹھن پہاڑیاں ہیں جو سطح سمندر سے 17 سو میٹر سے لے کر تقریباً ساڑھے سات ہزار میٹر بلند ہیں۔

شمالی علاقہ جات میں زلزلے بھی عام ہیں اور ماضی میں شدید زلزلے آ چکے ہیں۔ امریکی ادارے کے مطابق اس علاقے میں 1980 سے پانچ شدت سے کم کے 300 اور سات شدت سے کم کے سات زلزلے آ چکے ہیں۔

شمالی علاقہ جات میں حال ہی میں کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ لینڈ سلائیڈنگ کی بڑی وجہ پہاڑوں پر زراعت ہے۔ زمینوں کو پانی دیے جانے کے باعث زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو جاتی ہے، جس سے لینڈ سلائیڈنگ زیادہ ہوتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کا پانی زمینوں کی جانب موڑ دیا جاتا ہے۔ بلند پہاڑوں پر موجود گلیشیئرز سے یہ پانی کئی کئی کلومیٹر تک جاتا ہے۔

یہ پانی متوقع لینڈ سلائیڈ ایریا میں زمین کے اندر جا سکتا ہے اور اسی وجہ سے یہاں لینڈ سلائیڈز کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ اسی جگہ پر کئی آبشاریں اس بات کا عندیہ دیتی ہیں کہ پانی کی مقدار زیادہ ہے۔

ایک حالیہ تحقیق میں پاکستان کی چند لینڈ سلائیڈز کا جائزہ لیا گیا ہے۔

مشہور اور دلکش راکاپوشی سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر میون گاؤں کے شمال میں میون لینڈ سلائیڈ ہے۔ یہ لینڈ سلائیڈ ڈیڑھ ہزار مربع میٹر پر محیط ہے اور مسلسل سلائیڈ کے باعث اس میں دراڑیں ظاہر ہیں۔

مقامی آبادی کے مطابق پہلی بار لینڈ سلائیڈ 1976 میں، پھر 2011 میں اور پھر 2012 میں ہوئی تھی۔

دریائے ہنزہ پر گلمت گاؤں میں گلمت لینڈ سلائیڈ ہے، جو تحقیق کے مطابق دریائے ہنزہ اور قراقرم ہائی وے کی جانب بڑھ رہی ہے اور اگر یہ لینڈ سلائیڈ اچانک اور بہت بڑی ہوتی ہے تو خطرہ ہے کہ یہ دریائے ہنزہ کا پانی روک کر ایک ڈیم بنا دے گی اور قراقرم ہائی وے کو بھی اس سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

کھائی گاؤں کی لینڈ سلائیڈ ایک چھوٹی لینڈ سلائیڈ ہے، جو پانچ سو میٹر لمبی ہے۔ یہ ڈیڑھ لاکھ مربع میٹر پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کی اونچائی 21 سو سے 24 سو میٹر ہے۔

یہ لینڈ سلائیڈ کھائی کے جنوب میں حماری گاؤں کے قریب ہے۔ اس لینڈ سلائیڈ میں تبدیلی دیکھی گئی ہے جو پہلے نہیں دیکھی گئی۔

یہ لینڈ سلائیڈز ایک بڑا خطرہ ہیں اور خاص طور پر حماری لینڈ سلائیڈ جو اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی تھی۔ حکومت کو اس پر مزید تحقیق کرنی چاہیے اور بروقت اقدامات اٹھا کر جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات