لیبارٹری میں تیار خون پہلی مرتبہ دو مریضوں کے جسم میں

خون کا گروپ کمیاب ہونے والے مریضوں ہے یا انتقال خون کی پیچیدہ ضروریات والے لوگوں کے علاج کو بہتر بنانے کے لیے یہ تحقیق سائسندانوں کے مطابق مستقبل کی جانب بڑا قدم ہے۔

دو جون 2020 کو بیونس آئرس، ارجنٹائن میں کرونا کے لیے ایک تحقیق (اے ایف پی)

لیبارٹری میں تیار کیا گیا خون دنیا کے پہلے کلینیکل ٹرائلز میں دو رضاکاروں کو لگا دیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ ہے کہ اس طرح ان مریضوں کے علاج میں انقلاب آ جائے جن کا خون کمیاب ہوتا ہے یا وہ خون کے سرخ خلیوں کی سِکل سیل نامی بیماری میں میں مبتلا ہوتے ہیں

لیبارٹری میں بنائے گئے خون کے خلیے عطیہ کیے گیے سٹیم سیلز سے تیار کیے گئے اور ان خلیوں کو پانچ سے 10 ملی لیٹر کی مقدار میں جو تقریباً چائے کے ایک سے دو چمچ بنتی ہے، رضاکاروں کو لگایا گیا۔ آزمائشی استعمال کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ ایک ہی ڈونر کے معیاری خون کے سرخ خلیوں کے مقابلے میں لیبارٹری میں تیار کر کے لگائے خلیے کتنی دیر وجود برقرار رکھتے ہیں۔

توقع ہے کہ لیبارٹری میں تیار کیے گئے خون کے خلیے عطیہ کیے گئے معیاری سرخ خلیات سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے کیوں کہ تیار کردہ خون کے خلیے تازہ ہوتے ہیں، یعنی جن مریضوں کو باقاعدگی سے خون کی ضرورت ہوتی ہے، ہو سکتا ہے کہ انہیں زیادہ بار انتقال خون کی ضرورت نہ پڑے۔

یونیورسٹی آف برسٹل میں سیل بائیولوجی کے پروفیسر اور سرخ خلیات کی مصنوعات میں این آئی ایچ آر بلڈ اینڈ ٹرانسپلانٹ یونٹ کی ڈائریکٹر ایشلی ٹوئے کا کہنا ہے کہ ’یہ مشکل اور دلچسپ آزمائش سٹیم سیلز سے خون بنانے کی جانب بڑا قدم ہے۔‘

’پہلی بار جینیاتی طور پر مختلف خلیات رکھنے والے ڈونر سے لیبارٹری میں تیار کیا گیا خون کسی کو لگایا گیا ہے ہم یہ دیکھنے کے لیے پرجوش ہیں کہ ٹرائل کے اختتام پر ان خلیات کی کارکردگی کتنی عمدہ رہتی ہے۔‘

مریضوں پر قریب سے نظر رکھی گئی اور کسی ناخوشگوار ضمنی اثرات کی اطلاع نہیں ملی۔ محققین نے کہا کہ وہ صحت مند ہیں اور ٹھیک جا رہے ہیں۔

اگر خون کے لیبارٹری میں بنائےگئے خلیات جسم میں زیادہ دیر تک موجود رہےاور مریضوں کو خون لگوانے کی کم ضرورت پڑی تو اس طرح بار بار انتقال خون کے نتیجے میں خون میں زیادہ مقدار میں پیدا ہونے والے اس فولاد کی مقدار کم ہو جائے گی جو سنگین پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔

یونیورسٹی آف کیمبرج اور این ایچ ایس بلڈ اینڈ ٹرانسپلانٹ (این ایچ ایس بی ٹی) میں ٹرانسفیوژن میڈیسن کے پروفیسر اور کنسلٹنٹ ہیماٹولوجسٹ سیڈرک گیورٹ کے بقول: ’ہمیں امید ہے کہ لیبارٹری میں تیار کیے گئے خون کے سرخ خلیات ڈونرز سے لیے گئے خون کے مقابلے میں زیادہ دیر اپنا وجود برقرار رکھیں گے۔

’اگر ہمارا ٹرائل جو دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا ہے، کامیاب ہو گیا تو اس کا مطلب ہو گا کہ وہ مریض جنہیں اس وقت باقاعدگی سے خون لگوانے کی ضرورت ہے انہیں مستقبل میں چند بار انتقال خون کی ضرورت پڑے گی۔ اس طرح ان کی دیکھ بھال کے عمل کو تبدیل کرنے میں مدد ملے گی۔‘

این ایچ ایس بی ٹی کے بلڈ ڈونر بیس کے عطیہ دہندگان نے ٹرائل کے لیے خون کا عطیہ دیا اور ان کے خون سے سٹیم سیلز کو الگ کر دیا گیا۔ اس کے بعد ان سٹیم سیلز کو برسٹل میں این ایچ ایس بی ٹی کے جدید سہولتوں سے آراستہ تھراپیز یونٹ کی لیبارٹری میں خون کے سرخ خلیات بنانے کے لیے تیار کیا گیا۔ جن لوگوں کو خون لگایا گیا وہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ کیئر ریسرچ (این آئی ایچ آر) بائیو ریسورس کے صحت مند رکن ہیں۔

توقع ہے کہ کم از 10 رضاروں کو چار ماہ کے وقفے سے دو مرتبہ کم مقدار میں خون لگایا جائے گا۔ انہیں ایک بار عطیہ کیا گیا اور ایک بار لیبارٹری میں تیار کیا گیا خون لگایا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس طرح سائنس دان مطالعہ کر سکیں گے کہ آیا کہ لیبارٹری میں بنائے گئے خون کے تازہ خلیات جسم کے اندر بننے والے خون کے مقابلے میں زیادہ دیر تک قائم رہتے ہیں۔

این ایچ ایس بی ٹی کے میڈیکل ڈائریکٹر آف ٹرانسفیوژن ڈاکٹر فرخ شاہ نے کہا ہے کہ ’وہ مریض جنہیں باقاعدگی یا وقفے وقفے سے خون لگوانے کی ضرورت ہوتی ہے، ہو سکتا ہے کہ ان کے جسم میں چھوٹے بلڈ گروپس کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا ہو جائیں جس سے ڈونر کا وہ خون تلاش کرنا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے، جسے زندگی کو خطرے میں ڈالنے والے ردعمل کے بغیر لگایا جا سکتا ہے۔

’دنیا کی یہ سرکردہ تحقیق خون کے وہ سرخ خلیات تیار کرنے کی بنیاد رکھ رہی ہے جو سکل سیل جیسی بیماری میں مبتلا لوگوں کو محفوظ طریقے سے منتقل کرنے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

’بڑے پیمانے پر خون کی فراہمی کے لیے خون کے معمول کے عطیات کی ضرورت باقی رہے گی۔ لیکن وہ مریض جنہیں خون لگانا مشکل ہوتا ہے، ان کے لیے اس کام کی ممکنہ افادیت اہم ہے۔‘

مریضوں کو لگانے سے پہلے لیبارٹری میں بنائے خون کے مزید ٹرائلز کی ضرورت ہے۔ تاہم سائنس دانوں نے وضاحت کی ہے کہ یہ تحقیق ان مریضوں جن کے خون کا گروپ کمیاب ہوتا ہے یا انتقال خون کی پیچیدہ ضروریات والے لوگوں کے علاج کو بہتر بنانے کے لیے مصنوعی خون کے سرخ خلیات استعمال کے مستقبل کی جانب بڑا قدم ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی