عمران خان حملے کی تحقیقات: سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر

درخواست میں عمران خان پر حملے، ان کی خواہش کے مطابق مقدمے کا اندراج اور اعظم سواتی پر تشدد کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

پ ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی سپریم کورٹ آف پاکستان اسلام آباد میں 14 نومبر 2022 کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے عمران خان پر قاتلانہ حملے اور اعظم سواتی پر تشدد کے خلاف درخواست دائر کر دی ہیں۔ یہ درخواست بیک وقت سپریم کورٹ کی تمام رجسٹری میں جمع کرائی گئی جہاں پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے میڈیا سے بات بھی کی تھی۔

درخواست میں عمران خان پر حملہ اور ان کی جانب سے نامزد کیے جانے والے تین افراد کے خلاف مقدمے کا اندراج نہ ہونے کی تحقیقات، اعظم سواتی پر تشدد کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

درخواست میں بنیادی طور پر تین نکات پر استدعا کی گئی ہے۔ جس میں وزیرآباد حملے کی ایف آئی آر چیئرمین پی ٹی آئی کے نامزد کردہ افراد کے خلاف درج کرنے کی استدعا ہے۔

اس کے علاوہ سینیئر صحافی ارشد شریف کے کینیا میں قتل کی تحقیقات کے لیے بھی جوڈیشل انکوائری کی استدعا کی گئی ہے۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی کی مبینہ لیک ویڈیو پر بھی تحقیقات کی استدعا کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی اور دیگر سینیئر قیادت نے درخواست جمع کرائی ہے۔

پشاور میں شوکت یوسفزئی کی قیادت میں درخواست دائر کی گئی ہے۔ کراچی سے نامہ نگار امر گرڑو کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پی ٹی آئی کے 26 ایم پی ایز اور 17 ایم این ایز نے مشترکہ درخواست جمع کرادی ہے۔

کوئٹہ سے نامہ نگار ہزار خان کے مطابق سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں درخواست صوبائی صدر قاسم سوری اور اراکین صوبائی اسمبلی کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔

اعظم سواتی کی سپریم کورٹ میں گفتگو

درخواست دائر کرنے کے بعد رہنما اعظم سواتی نے میڈیا سے سپریم کورٹ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب ہماری حکومت آئے گی تو کسی کو ایکسٹینشن نہیں ملے گی۔ جس طرح عدالت ایئر فورس اور نیوی میں سینیارٹی میرٹ ہے۔ اسی طرح سینیئر ترین شخص کو آرمی چیف تعینات کیا جائے گا۔ ہمیں کوئی غرض نہیں بے شک کوئی بھی آرمی چیف آئے۔‘

درخواست کا متن

پی ٹی آئی کی تمام درخواستوں کا موقف مشترکہ ہے۔ تمام درخواستوں میں مشترکہ طور پر استدعا کی گئی ہے لیکن مقامی رہنماؤں نے الگ الگ درخواستیں آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت جمع کرائی ہیں۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ قانون کے مطابق ایس ایچ او دی گئی درخواست پر مقدمہ درج کرنے کا پابند ہے۔

درخواست پر ایف آئی آر درج نہ کرنا بنیادی حقوق اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔ کیا اعلی عہدوں پر فائز عوامی عہدے دار اور ملٹری یونیفارم میں سینیئر افسران قانون سے بالاتر ہیں؟

کیا عام شہریوں اور حکمرانوں کے لیے الگ الگ قوانین ہیں؟

درخواست میں کہا گیا کہ اعظم سواتی کی ویڈیو بنانا اور اہلیہ کو بھیجنا انسانی وقار اور قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اعظم سواتی کی ویڈیو بنانے کے معاملے پر اراکین پالیمنٹرین اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کررہے ہیں۔

اس سے قبل چیئرمین پی ٹی آئی اپنی تقاریر میں سپریم کورٹ سے ان معاملات پر ازخود نوٹس لینے کی درخواست کر چکے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کا سپریم کورٹ کو خط

وزیراعظم شہباز شریف نے معاملہ متنازع ہونے اور وزیراعظم، وزیر داخلہ اور اعلی فوجی افسر پر الزام تراشی پر سپریم کورٹ سے تحقیقات کے لیے فُل کورٹ بنانے کی استدعا بھی کر رکھی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیف جسٹس کے نام وزیراعظم شہباز شریف نے دو خط لکھے ہیں۔ ایک خط میں صحافی ارشد شریف سے متعلق حقائق جاننے کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل کمیشن بنایا جائے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھے گئے دوسرے خط میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل کمیشن بنایا جائے، کمیشن پانچ سوالات پر خاص طور پر غور کرسکتا ہے، کاررواں کی حفاظت کی ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے کون سے اداروں کی تھی؟

کاررواں کی حفاظت کے لیے مروجہ حفاظتی اقدامات اور سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) لاگو کئے گئے؟ اور کیا ان پر عمل کیا گیا؟

حادثے کے اپنے حقائق کیا ہیں؟ ایک سے زیادہ شوٹرز کی موجودگی کی اطلاع، جوابی فائرنگ، مجموعی طور پر نشانہ بننے والوں کی تعداد، ان کے زخموں کی نوعیت سے متعلق حقائق کیا ہیں؟

خط میں یہ بھی کہا گیا کہ اس کی بھی تحقیقات کی ضرورت ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامی حکام نے مروجہ تفتیشی طریقہ کار کو اختیار کیا، وقوعہ کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامی حکام نے شہادتیں جمع کرنے اور صورتحال سے نمٹنے کے مروجہ طریقہ کار کو اختیار کیا؟

اگر ایسا نہیں ہوا تو ضابطے کی کیا خامیاں اور کمزوریاں سامنے آئیں؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست