’فن وقت کی قید میں نہیں ہوتا‘: شان کی ’ضرار‘ کے ساتھ واپسی

شان شاہد کی فلم ’ضرار‘ 25 نومبر کو نمائش کے لیے پیش کی جارہی ہے، جس کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’ضرار ایک ایسا جنگجو ہے جو خفیہ جنگ لڑتا ہے، سامنے نہیں آتا، وہ جنگ جو میڈیا پر نظر نہیں آتی۔‘

1990 میں فلم ’بلندی‘ سے شہرت پانے والے شان شاہد نے کبھی دوبارہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور کامیابیاں جیسے ان کی گرفت میں آتی گئیں۔

 تاہم شان کی سینیما سے طویل غیر حاضری کے بعد ان کی فلم ’ضرار‘ 25 نومبر کو نمائش کے لیے پیش کی جارہی ہے۔ اس فلم کے مصنف اور ہدایت کار بھی وہ خود ہی ہیں۔

لاہور میں واقع اپنے گھر کے لان میں انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے فلم ’ضرار‘ کے ساتھ ساتھ فلمی صنعت کے مسائل پر بھی بات کی۔

پانچ سال کی غیر حاضری پر شان شاہد کا کہنا تھا کہ ’فن وقت کی قید میں نہیں ہوتا‘، جب بھی کوئی ایسا سکرپٹ ملتا ہے جو فلم بنانے پر اکسائے تو وہ کرنا چاہیے اور اسی ذریعے سے عوام کے ساتھ رابطہ رہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ پانچ سال میں بہت سی فلمیں بنی ہیں، مگر صوبوں کی خودمختاری کے بعد، فلمی صنعت بھی خودمختار ہوچکی ہے۔ کراچی کی فلمیں علیحدہ ہیں اور اسلام آباد کی علیحدہ۔ لوگ اپنی اپنی ٹیموں میں کام کرتے ہیں۔ بہتر یہ ہوتا کہ ایک ساتھ مل کر کام کیا جاتا، اگر ایسا ہوتا تو اتنا طویل وقفہ نہیں آنا چاہیے۔‘

بقول شان: ’میں عوام کو وہ جنگ دکھانا چاہتا تھا جو وہ نہیں دیکھ سکتے۔ پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر جو لابی کام کر رہی ہے، اسے فلم کے پردے پر لاکر دکھانا بہت اہم ہے، کیونکہ مغرب میں جب ایسی کوئی فلم بنتی ہے تو وہ فکشن تخلیق کرتے ہیں، جبکہ ہمارے یہاں ولن اتنے ہیں کہ فکشن کی ضرورت ہی نہیں ہے۔‘

’ضرار‘ کی ہیروئین کرن ملک کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’کرن ملک کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ وہ اپنے کردار کے بارے میں تحقیق کرنے کے لیے تیار تھیں اور جس جس صحافی کے بارے میں ان سے کہا کہ وہ انہیں ذہن میں رکھیں انہوں نے ویسا ہی کیا‘۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغانستان کے سرحدی علاقے میں فلم کی عکس بندی کے بارے میں شان نے بتایا کہ ’وہ ایک ایکشن سین تھا جس میں ہیرو کو ایک خفیہ اطلاع پر فوری عمل کرنا ہوتا ہے، تو کہانی کی مناسبت سے وہ کیا گیا تھا۔‘

اپنی فلم کا نام ’ضرار‘ رکھنے کے بارے میں شان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے والد کی فلم ’زرقا‘ کے ’زیڈ اے آر‘ سے کچھ نسبت رکھنا چاہتے تھے، کیونکہ وہ اپنے والد کی نسبت سے ہر فلم میں کچھ نہ کچھ رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ضرار‘ ایک ایسا جنگجو ہے جو خفیہ جنگ لڑتا ہے، سامنے نہیں آتا، وہ جنگ جو میڈیا پر نظر نہیں آتی۔ ’مزید یہ کہ ضرار کوئی آرمی پر مبنی فلم نہیں ہے، یہ ایک انڈپینڈنٹ فلم ہے، جو ایک مخصوص قسم کے حالات پر مبنی ہے۔‘

شان نے شکایت کی کہ پاکستانی فلمی صنعت میں سب الگ الگ کام کرتے ہیں۔ ’معلوم نہیں مل کر کام کرنے میں کیا تکلیف ہوتی ہے، اپنے اپنے کیمپ بنانے سے بہتر ہے کہ پوری فلمی صنعت کو ایک کیمپ بنالیا جائے، جو پاکستان کی عالمی سطح پر نمائندگی کرسکے۔

’میں نے آج تک 580 فلمیں کی ہیں، جن میں سے 15 میری اپنی ہوں گی، باقی تمام دیگر پروڈیوسرز کی تھیں، آج کل ہیروز خود پروڈیوسرز ہیں۔‘

شان شاہد نے ’مولاجٹ‘ کی کامیابی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ آج بھی پاکستان کی سب سے مہنگی فلم بنائی گئی تو 40 سال پرانی کہانی کو لیا گیا۔

’آج بھی پاکستانی فلموں کی بہت سی کہانی ہیں جنہیں ازسرنو بنایا جا سکتا ہے، یہ ضروری ہے کہ اس قسم کی فلموں میں آج کے دور سے مطابقت کی جائے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں فلمی موسیقی کا فقدان ہے، جبکہ فلم کی موسیقی ہی سب سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے، اس ملک میں آج بھی پرانے گانے لوگوں کو یاد ہیں، نئے گانے لوگ بھول ہی گئے ہیں۔

آخر میں شان کا کہنا تھا کہ ’ضرار‘ کی موسیقی بہت اچھی ہے، اسے فلم کی مناسبت سے ترتیب دیا گیا ہے اور فلم کی موسیقی اس کے کرداروں کی مناسبت سے ہی ترتیب دی گئی ہے۔

(ایڈیٹنگ: فرخ عباس)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم