روس سے سستا تیل خریدا نہ خرید رہے ہیں: وزیرخارجہ

نیویارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایسا نظام موجود نہیں جو روسی تیل کو صاف کر سکے لیکن انڈیا میں یہ نظام موجود ہے۔

پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ پاکستان نے روس سے تیل نہیں خریدا اور نہ ہی خرید رہے ہیں۔

جمعرات کو نیویارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں ایسا نظام موجود نہیں جو روسی تیل کو صاف کر سکے لیکن انڈیا میں یہ نظام موجود ہے۔ تاحال پاکستان روس سے تیل نہیں خرید رہا لیکن ہم روس سے کچھ گندم خرید رہے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ابھی تک پاکستان میں ایسا نظام نہیں ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ہم مستقبل میں اس حوالے سے کچھ کام کریں تاہم جلد اس بات کا امکان نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’جہاں تک رعایتی نرخوں پر تیل خریدنے کی بات ہے تو آج کل کوئی رعایتی نرخوں پر تیل نہیں دے رہا۔‘

وزیرخارجہ کے مطابق: ’ہم پاکستان میں بھرپور طریقے سے اپنی توانائی کی ضروریات اور اس حوالے سے مسائل کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ’روس اور یوکرین کی جنگ کے بعد یورپ نے روسی تیل اور گیس پر انحصار کیا ہے، پاکستان نے نہیں۔ جن ممالک سے ہم تیل اور گیس خریدتے تھے اب یورپی، ان ممالک کے پاس جا کر اس مارکیٹ میں بھی ہمارے لیے مقابلے کی فضا قائم کر رہے ہیں، جو ایک مشکل صورت حال ہے۔ رعایتی نرخوں پر روسی تیل کی بات کرنا ٹرک کی بتی ہے۔‘

وزیرخارجہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کے وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے پانچ دسمبر کو ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ روس پاکستان کو خام تیل کم قیمت دینے پر آمادہ ہو گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزارت پیٹرولیم کے دیگر اعلیٰ عہدیداروں کے ہمراہ حال ہی میں روس کا دورہ کرنے والے مصدق ملک کا کہنا تھا: ’روس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ہمیں ڈسکاؤنٹ پر خام تیل دے گا۔ پیٹرول اور ڈیزل دونوں پاکستان کو کم قیمت پر دے گا۔‘

تاہم انہوں نے کہا کہ اس بارے میں معاہدہ آئندہ سال جنوری میں ہو گا۔

بقول مصدق ملک: ’جنوری میں روس کے وزرا کا ایک وفد آ رہا ہے، اس وقت ہماری کوشش ہوگی کہ اس کے بعد ہم ان سے تیل، ڈیزل یا خام تیل لے سکیں۔ جب معاہدے پر دستخط ہوجائیں تو میں آپ کو بتا دوں گا۔‘

تاہم روس کی طرف سے اس حوالے سے کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا تھا۔

انڈیا کشمیریوں کے حقوق غصب کر چکا

کشمیر اور انڈین حکومت کے اقدامات پر بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے دنیا اس بات پر مطمئن ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں ہو رہا۔ اگست 2019 میں انڈیا نے قابل مذمت طور پر کشمیر کے ان حقوق کو غصب کیا جو اقوام متحدہ نے تسلیم کیے تھے۔‘

وزیرخارجہ نے کہا: ’یہ عجیب بات ہے کہ میں کل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تھا جس کی صدارت انڈیا کے پاس ہے۔ وہی انڈیا جو کثیر الجہتی کی بات کرتا ہے لیکن کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘

بقول بلاول بھٹو: ’وہ ایک دن کثیرالجہتی کی بات کرتے ہیں اور اگلے دن کشمیر پر دوطرفہ حل کی بات کرتے ہیں لیکن اکیلے ہی قبضہ کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ یہ منافقت اقوام متحدہ کی عدم فعالیت کی نشاندہی کرتی ہے۔‘

پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کا ردعمل

انڈیا کے وزیر خارجہ جے شنکر کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کے سوال پر بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا: ’میری والدہ کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا، پاکستان کے وزیراعظم (شہباز شریف) جب وزیراعلیٰ تھے تو ان کے وزیر داخلہ (شجاع حیدر) کو دہشت گردوں نے قتل کیا۔ کیا ہم دہشت گرد ہیں؟ ہم پاکستان میں ہوں تو ہمیں دہشت گرد کہا جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق: ’انڈیا میں بھی مسلمانوں کو دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ میں انڈیا کے وزیرخارجہ کو یاد کروانا چاہتا ہوں کہ اسامہ بن لادن ہلاک ہو چکا ہے لیکن گجرات کا قصائی زندہ ہے اور انڈیا کا وزیراعظم بن چکا ہے۔ ان پر وزیراعظم بننے تک اس ملک میں آنے پر پابندی تھی۔ یہ آر ایس ایس کے وزیراعظم اور وزیرخارجہ ہیں۔‘

افغانستان کی صورت حال

افغانستان کی صورت حال اور پاکستانی سفارت خانے پر ہونے والے حملے کے سوال پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ ’افغانستان میں ہمارے ناظم الامور پر حملہ کیا گیا، ہم نے سکیورٹی خدشات پر افغانستان کی عبوری حکومت سے بات کی ہے۔ افغان انتظامیہ نے نہ صرف ہمیں اس حوالے سے یقین دہانی کروائی ہے بلکہ انہوں نے اس حملے میں ملوث حملہ آوروں کو فوری طور پر گرفتار بھی کر لیا ہے۔‘

’ہم دونوں اس پر اپنی اپنی تحقیقات کر رہے ہیں۔ میں نے افغانستان سے اپنے سفیر کو نہیں بلایا۔ انہوں نے اپنے کام سے ویسے بھی پاکستان آنا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے سکیورٹی خدشات کو دور کیا جائے گا اور وہ افغانستان واپس جا سکیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان