جیمز ویب ٹیلی سکوپ: ستاروں کے نئے دور کا وعدہ

جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ نے 2022 کو ابتدائی کائنات کی شاندار تصاویر سے روشن کر دیا، اور اب سائنس دان پرامید ہیں کہ یہ آنے والے برسوں میں کائنات کے بارے میں چونکا دینے والے انکشافات کرے گی۔

25 دسمبر، 2021 کو جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ آریان سپیس آریان فائیو راکٹ سے الگ ہو رہی ہے (اے ایف پی/ ناسا)

جدید ترین خلائی دور بین جیمز ویب نے کائنات کی تخلیق کا سبب بننے والے بگ بینگ کے بعد 2022 کو ابتدائی کائنات کی شاندار تصاویر سے روشن کر دیا۔

جیمز ویب سے فلکیات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا اور آنے والے برسوں میں امید ہے کہ یہ کائنات کے بارے میں وہ انکشافات کرے گی جو ابھی تک پوشیدہ ہیں۔

خلا میں بھیجی گئی سب سے طاقت ور دور بین نے ہبل دوربین کی جگہ لی جو اب بھی کام کر رہی ہے۔

اس دوربین نے جولائی میں اپنی پہلی کائناتی تصاویر زمین پر بھیجنی شروع کیں۔

بالٹی مور میں سپیس ٹیلی سکوپ سائنس انسٹی ٹیوٹ میں ویب مشن آفس کے سربراہ مسیمو سٹیا ویلی کا کہنا ہے کہ ’جیمز ویب دور بین ہر معاملے میں توقع سے بڑھ کر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔‘

سائنس دانوں کا پہلے ہی کہنا ہے کہ جیمز ویب دوربین، جو اب سورج کے گرد زمین سے 10 لاکھ میل (16 لاکھ کلومیٹر) کے فاصلے پر گردش کر رہی ہے، اسے 20 سال تک کام کرنا چاہیے۔

یہ مدت اس کی اس زندگی سے دو گنا زیادہ ہے جس کی ضمانت دی گئی ہے۔

سٹیاویلی کے بقول: ’دور بین کے آلات زیادہ موثر ہیں۔ آپٹکس تیز اور زیادہ مستحکم ہیں۔ ہمارے پاس ایندھن زیادہ ہے اور ہم کم ایندھن استعمال کرتے ہیں۔‘

تصاویر کے صاف ہونے کے معاملے میں استحکام ضروری ہے۔ مشن آفس کے سربراہ نے مزید کہا کہ ’درستی کے لحاظ سے ہماری ضرورت ہبل کی طرح تھیں اور ہم سات گنا بہتر رہے۔‘

دریافتوں کے لیے عوام کے اشتیاق دوربین کی تصویروں کو رنگین بنا کر سے پورا کیا گیا ہے۔ انتہائی دور کہکشاؤں کی روشنی کو نظر آنے والے سپیکٹرم ، جسے محض آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے، سے انفراریڈ تک پھیلا دیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جیمز ویب دور بین انفراریڈ روشنی کو اتنا واضح طور پر دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

اس طرح یہ دوربین اس قابل ہو جاتی ہے کہ وہ ایک بے مثال ریزولیوشن میں دور دراز کی کائنات کی دھندلی روشنیوں کا پتہ لگا سکے۔

دھول کے اس پردے کے پار دیکھ سکے جو ایک نیبولا میں ستاروں کے ابھرنے کو چھپا دیتا ہے اور ان سیاروں کے ماحول کا تجزیہ کیا جا سکے جو ہمارے نظام شمسی سے باہر ستاروں کا چکر لگاتے ہیں۔

کورنیل یونیورسٹی میں فلکیات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر لیزا کالٹینگر کا کہنا ہے کہ ’پہلے سال (کا مشاہدہ) اس قابل رہائش علاقے کے چھوٹے چٹانی سیاروں کے لیے بنائے گئے آلے کی آزمائش کا طریقہ ہے جو ممکنہ طور پر زمین کی طرح ہو سکتا ہے۔‘

’اور تجربات کامیاب رہے۔ وہ بہت شاندار ہیں۔‘ خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کے 30 سالہ منصوبے کے تحت جیمز ویب دوربین کو 2021 کے اختتام پر آریان فائیو راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا گیا تھا۔

6.2 ٹن وزنی دوربین کو خلا میں پہنچانے کے لیے 10 ہزار لوگوں نے کام کیا اور اس پر 10 ارب ڈالر خرچ ہوئے۔

(ایڈیٹنگ: بلال مظہر | ترجمہ: علی رضا)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق