مریم نواز کے لیے مسلم لیگ ن کی ’تنظیم نو‘ کتنا بڑا چیلنج ہوگا؟

مسلم لیگ ن کی قیادت کا کہنا ہے کہ مریم نواز کی نامزدگی سوچ سمجھ کر کی گئی ہے کیونکہ انہیں (مریم نواز) کو بھی نواز شریف اور شہباز شریف کی طرح ہی مقبولیت اور احترام حاصل ہے۔

مریم نواز 13 دسمبر 2020 کو لاہور میں حکومت مخالف ریلی کے دوران (اے ایف پی)

پاکستان کی برسر اقتدار سیاسی جماعت مسلم لیگ ن نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو پارٹی کی چیف آرگنائزر اور سینیئر نائب صدر مقرر کرتے ہوئے انہیں جماعت کی ’تنظیم نو‘ کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔

مسلم لیگ ن کی قیادت کے بقول مریم نواز کو بھی نواز شریف اور شہباز شریف کی طرح ہی مقبولیت اور احترام حاصل ہے اور پارٹی کارکنوں کے ساتھ ساتھ رہنماؤں کی اکثریت بھی ان کی جدوجہد اور قربانیوں کی معترف ہے، اس لیے ان کی نامزدگی سوچ سمجھ کر کی گئی ہے جو موجودہ حالات میں سب سے زیادہ موثر ہوگی۔

مریم نواز کو پارٹی کی سینیئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مقرر کرنے کا نوٹیفیکیشن منگل کی دوپہر جاری کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں پارٹی کو متحرک اور متحد کرنا مریم نواز کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہو گا، تاہم ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ن لیگ کو دوسرے لیڈرز کے مقابلے میں زیادہ بہتر متحرک کر سکتی ہیں۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مریم نواز لندن سے جماعت کی تنظیم نو کیسے کریں گی؟

اس معاملے پر ن لیگی رہنماؤں اور سیاسی تجزیہ کاروں کی متفقہ رائے ہے کہ مریم نواز اور نواز شریف کو جلد وطن واپس آنا ہو گا جس کے لیے رواں ماہ کے آخر یا مارچ سے قبل ان کی پاکستان واپسی کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔

’مریم نواز بہت جلد پاکستان واپس آئیں گی‘

وزیر اعظم کے معاون خصوصی رانا مبشر اقبال کہتے ہیں کہ ’مریم نواز لندن کی بجائے پاکستان سے پارٹی کو چلائیں گی لیکن وہ جب تک لندن میں ہیں، تب تک ضروری امور لندن سے ہی چلائیں گی۔‘

رانا مبشر اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مریم نواز بہت جلد پاکستان واپس آئیں گی اور ان کی کوشش ہو گی کہ وہ نواز شریف کو ساتھ لے کر آئیں، تاہم مریم نواز کی وطن واپسی کی حتمی تاریخ کا تعین نواز شریف کریں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’شہباز شریف پارٹی کے منتخب صدر ہیں اور پارٹی آئین کے مطابق شہباز شریف پارٹی میں نامزدگیاں کر سکتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے مریم نواز کی نامزدگی کی ہے۔ ‘

’مریم نواز پارٹی میں ان مخلص کارکنوں کو اہم عہدوں پر فائز کریں گی جنہوں نے مشکل اور کڑے وقت میں پارٹی کا بھرپور ساتھ دیا۔‘

رانا مبشر کہتے ہیں کہ ’پارٹی میں نواز کیمپ کے علاوہ کوئی کیمپ نہیں ہے۔ شہباز کیمپ اور نواز کیمپ مخالفین کی رائے ہو سکتی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ شہباز شریف نے نواز شریف کی مشاورت سے ہی مریم نواز کی نامزدگی کی ہے۔‘

اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے رہنما اور رکن پارلیمان افضل کھوکھر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’اختلاف رائے ہر پارٹی میں ہوتا ہے، یہ جمہوریت کا حسن اور لوگوں کا حق ہے، مگر ہماری پارٹی میں کوئی سنجیدہ اختلافات نہیں ہیں۔ حلقوں کی سطح کے اختلافات مریم نواز باآسانی ختم کروا سکتی ہیں۔‘

افضل کھوکھر کے بقول ٹکٹوں کی تقسیم وغیرہ کے معاملات انتخابات کے اعلان کے بعد قائم ہونے والے پارلیمانی بورڈ کی متفقہ رائے سے حل کر لیے جائیں گے۔

’شہباز شریف بطور وزیراعظم بہت زیادہ مصروف ہیں اور یہ عام انتخابات کا سال ہے جس کے لیے پارٹی کو یونین کونسل کی سطح تک منظم کرنے کا کام پہلے ہی جاری اور تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔‘

افضل کھوکھر کے خیال میں ’حمزہ شہباز بھی اپوزیشن لیڈر ہونے کی وجہ سے مصروف ہیں جب کہ مریم نواز کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے اس لیے وہ عوامی سطح پر پارٹی کو منظم کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس لیے مریم نواز جیسی عوام میں انتہائی مقبول لیڈر کو پارٹی کی چیف آرگنائزر مقرر کر کے نواز شریف اور شہباز شریف نے احسن اقدام کیا ہے۔‘

موجودہ صورت حال مریم کے لیے کتنا بڑا چیلنج ہے؟

سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں، مسلم لیگ ن پر جب بھی کوئی مشکل وقت آتا ہے تو پہلے کلثوم نواز اور اب مریم نواز بھرپور مزاحمتی سیاست کی علامت کے طور پر جانی گئیں اور انہوں نے موثر کردار ادا کیا ہے۔‘

’جس طرح مشرف دور میں ن لیگ مشکلات سے دوچار رہی وہ حالات مختلف تھے، اسی طرح اب بھی عوامی سطح پر پارٹی مشکلات کا شکار ہے۔ اگرچہ حالات مختلف ہیں، پہلے انتقامی کارروائیوں کا شکار تھی، اور اب حکومت ملنے کے بعد بری کارکردگی کی وجہ سے غیر مقبولیت پریشانی کا سبب ہے۔‘

سلمان غنی کے بقول ’مریم نے جس طرح اپنے والد کے ساتھ گذشتہ کئی سال سے انتقامی کارروائیوں کا سامنا کیا ہے اس سے پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں میں وہ مقبول ضرور ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ اس حکومت کی مایوس کن کارکردگی کا بوجھ اٹھا پائیں گی؟ اور عوام کو مطمئن کر سکیں گی کہ ان کی پارٹی آئندہ اقتدار میں آئی تو لوگوں کے مسائل حل کرے گی؟‘

ان کے خیال میں ’مریم نواز لندن بیٹھ کر پارٹی کو منظم نہیں کر سکیں گی بلکہ انہیں اسی ماہ کے آخر یا مارچ سے پہلے وطن واپس آنا ہو گا۔ ان کی آمد کے بعد عوامی ردعمل کو دیکھ کر ہی نواز شریف کی واپسی ممکن ہو گی۔‘

یہی وجہ ہے کہ ’مریم نواز کی کارکردگی پر ن لیگ کے مستقبل کا تعین ہو گا کیونکہ انہیں ہی نواز شریف کے متبادل کے طور پر مستقبل میں پذیرائی مل سکتی ہے ورنہ جب بھی مزاحمت یا جدوجہد کا دور آتا ہے سابق وزیر، مشیر اور رہنما تو سائیڈ پر بیٹھ جاتے ہیں اور شہباز شریف کی مفاہمتی پالیسی کے حمایتی بن جاتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خاتون اینکر تنزیلہ مظہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’نواز شریف کے بعد مریم نواز کو ن لیگ میں سب سے زیادہ شہرت حاصل ہے۔ عمران خان دور میں جس طرح انہوں نے عدالتی کارروائیوں اور نیب کے مقدمات کا والد کے ساتھ مل کر مقابلہ کیا پھر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اس وقت بہادری سے مہم چلائی جب بولنا بھی جرم سمجھا جاتا تھا۔ ان کی مزاحمت کے باعث ہی طاقتور حلقوں نے ن لیگ کے ساتھ بات چیت شروع کی، اس وجہ سے انہیں نہ صرف پارٹی بلکہ عوام میں بھی مقبولیت حاصل ہو گئی، پھر جس طرح پی ٹی آئی قیادت کے پروپیگنڈہ پر مریم نواز نے جوابی مہم چلائی وہ بھی ن لیگ کے لیے موثر ثابت ہوئی۔‘

تنزیلہ کے مطابق ’موجودہ حکومت میں بھی وہ عوامی مشکلات پر آواز اٹھاتی رہی ہیں، حکومتی عہدے پر بھی فائز نہیں ہوئیں، اس لیے لوگوں میں وہ اپنی پارٹی کی ساکھ بحال کرنے میں شاید دوسرے لیڈرز کے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہیں۔‘

’لیکن جب وہ وطن واپس آ کر عوام میں جائیں گی تو ہی اندازہ ہو گا کہ عوام کس حد تک ان کے ساتھ چلنے کو تیار ہوتے ہیں کیونکہ موجودہ حکومت معاشی مشکلات اور انتظامی ناکامیوں پر ابھی تک قابو نہیں پا سکی۔ نہ ہی پہلے دور کی طرح وزیر اعظم ترقیاتی کاموں میں زیادہ مقبولیت حاصل کر پائے، لہذا لوگوں کو مطمئن کرنا مشکل ہو گا۔‘

تنزیلہ مظہر کے بقول ’تحریک انصاف کے بیانیے کو کاؤنٹر کر کے نیا بیانیہ بنانا بھی ایک امتحان ہو گا کیونکہ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ تو اب نہیں چلے گا لہذا مریم اب عدلیہ سے متعلق بیانیے کو آگے بڑھا سکتی ہیں۔‘

سوشل میڈیا پر ن لیگی رہنماؤں کی جانب سے مریم نواز کو چیف آرگنائزر کی ذمہ داری کو خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے اس امر پر تنقید جاری ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست