پشاور میں پیر کو ہونے والے خودکش دھماکے میں بہت خون بہا، اتنا کہ حکومت کی طرف سے فوری طور پر ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر کے عوام سے اپیل کی گئی کہ وہ خون کے عطیے کے لیے رضاکارانہ طور پر آگے بڑھیں۔
خودکش حملہ آور پولیس لائنز کی مسجد میں پہنچا جہاں لگ بھگ 300 نمازی موجود تھے اور عین نماز کے دوران دھماکہ کر کے اس نے درجنوں زندگیوں کے چراغ گل کر گیا، جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جب کہ بڑی تعداد میں زخمی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں جن میں بیشتر کو خون کی ضرورت تھی۔
زخمیوں کو بچانے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف اور صوبہ خیبر پختونخوا کی سیاسی قیادت کی طرف سے خاص طور پر ایسے افراد جن کا گروپ ’او نیگٹیو‘ تھا، ان سے کہا گیا کہ پشاور کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال لیڈی ریڈنگ پہنچیں اور خون عطیہ کریں۔
’او نیگیٹو‘ گروپ کے حامل افراد کو ’یونیورسل بلڈ ڈونر‘ تصور کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ خون کا وہ گروپ ہے جو کسی بھی دوسرے گروپ کے ضرورت مند شخص کو لگایا جا سکتا ہے اس لیے ایمرجنسی یا ہنگامی صورت حال میں ’او نیگیٹو‘ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
ڈاکٹر سلمان شفیع اسلام آباد کے سرکاری ہسپتال پمز میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر کریٹیکل کیئر میڈیسن کام کر رہے ہیں، انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ او نیگیٹو کو خون کا ایک نایاب گروپ تصور کیا جاتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ آٹھ فیصد لوگوں کا ہی یہ خون گروپ ہوتا ہے۔
’اچھا تو یہ ہی ہے کہ جس شخص کا جو بلڈ گروپ ہو، ضرورت کے وقت اسے اسی مخصوص بلڈ گروپ کا خون لگایا جائے لیکن جب ایمرجنسی ہوتی ہے یا کوئی آفت آتی ہے اور مریضوں کو فوری خون کی ضرورت ہوتی ہے تو اس صورت میں او نیگیٹو گروپ خون لگایا جا سکتا ہے، اس لیے اس کو یونیورسٹل ڈونر بلڈ گروپ کہا جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر سلمان کہتے ہیں کہ ’او نیگیٹو گروپ ہے تو نایاب کیوں کہ خون کا عطیہ کرنے کے لیے آنے والے 10 افراد میں سے اوسطاً ایک کے خون کا گروپ او نیگیٹو ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت جو ٹیکنالوجی موجود ہے او نیگیٹو گروپ کو چھ درجے سیلسیئس (درجہ حرارت) پر 40 سے 45 دن تک محفوظ کیا جا سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر سلمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا شخص جس کا بلڈ گروپ او نیگیٹو ہے اسے کسی اور بلڈ گروپ کا خون نہیں لگ سکتا۔
او نیگیٹو بھی نایاب اور زندگی بھی نایاب، ان دونوں کی حفاظت بہت ضروری ہے۔