کے ٹو: اس سال موسم سرما میں کوہ پیما کیوں نہیں آ رہے؟

بلند چوٹیوں کو سر کرنے کے لیے دنیا بھر سے کوہ پیما پاکستان کا رخ کرتے ہیں لیکن رواں سال موسم سرما میں کوئی بھی کوہ پیما ان چوٹیوں کو سر کرنے نہیں آیا۔

14 اگست 2019 کو لی گئی اس تصویر میں پورٹرز اور غیر ملکی ٹریکرز پاکستان کے پہاڑی شمالی گلگت علاقے کے قراقرم سلسلے میں واقع کنکورڈیا کیمپنگ سائٹ پر آرام کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سمیت دیگر پانچ بلند و بالا پہاڑ موجود ہیں جن کو کوہ پیما صرف موسمِ گرما میں ہی نہیں سردیوں میں بھی سر کرتے تھے مگر اس مرتبہ ایسا دیکھنے میں نہیں آرہا۔

دنیا کی 14 آٹھ ہزار میٹر (28 ہزار فٹ) سے بلند چوٹیوں میں سے پانچ چوٹیاں پاکستان کے قراقرم رینج میں واقع ہیں جن میں کے ٹو، نانگا پربت، گیشبرم-I ، گیشبرم II، اور براڈ پیک شامل ہیں۔

ان بلند چوٹیوں کو سر کرنے کے لیے دنیا بھر سے کوہ پیما پاکستان کا رخ کرتے ہیں لیکن رواں سال موسم سرما میں کوئی بھی کوہ پیما ان چوٹیوں کو سر کرنے نہیں آیا۔

اس بارے میں بعض ماہرین کا خیال ہے کہ امن و امان کی بگڑتی صورت حال ایک وجہ ہوسکتی ہے جبکہ بعض سمجھتے ہیں کہ یہ چوٹیاں سر ہوچکی ہیں، تو اب سردی میں کوہ پیماؤں کا وہ شوق نہیں رہا۔

کے ٹو کی بلندی 28251 فٹ ہے اور کوہ پیماؤں کے مطابق سردی میں اسے سر کرنا مشکل ترین کام ہے۔ نیپال کے 10 کوہ پیماؤں نے کے ٹو کو 2021 میں موسم سرما میں سر کرنے ریکارڈ بنایا گیا تھا اور اسی سال پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ اور ان کے دو ساتھیوں جان سنوری اور جون پابلو نے اسی مہم کے دوران کے ٹو کو ہی ہمیشہ کے لیے اپنا ابدی ٹھکانہ بنا لیا تھا۔

کے ٹو کو موسم سرما میں سر کرنے کے لیے 2021 میں 40 سے زائد کوہ پیما آئے تھے جن میں نیپال کے وہ دس کوہ پیما بھی شامل تھے جنہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ کے ٹو کو اس موسم میں سر کیا تھا۔

کے ٹو سمیت دیگر بلند ترین چوٹیوں کو سردی میں سر کرنے کا وقت نومبر سے شروع ہو کر فروری تک جاری رہتا ہے۔

2021 میں کے ٹو کو پہلی مرتبہ سردی میں جنوری کے مہینے میں سر کیا گیا تھا تاہم رواں برس کوئی بھی کوہ پیما پاکستان میں بلند ترین چوٹی کو سر کرنے نہیں آیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اسی حوالے سے کوہ پیمائی کے ماہرین اور گلگت میں موجود کچھ ٹورز آپریٹرز سے بات کی تاکہ جان سکیں کے کوہ پیماؤں کے نہ آنے کی وجوہات کیا ہیں۔

الپائن کلب ایک غیر سرکاری تنظیم ہے، جس کا قیام 1974 میں عمل میں آیا اور یہ کوہ پیمائی کی ترویج میں مدد فراہم کرتا ہے۔

الپائن کلب کے سربراہ کرار حیدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا رواں برس موسم سرما میں کوہ پیماؤں کے نہ آنے کی ایک وجہ ملک کی سیاسی صورت حال ہے۔

انہوں نے بتایا، ’سیاحت کا تعلق امن سے ہے اور جب امن نہ ہو تو سیاح نہیں آئیں گے جب کہ دوسری وجہ کوہ پیماؤں کو ویزوں کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے بھی کوہ پیما نہیں آئے ہیں۔‘

تاہم قراقرم رینج میں واقع دنیا کے بلند ترین چوٹیوں میں شامل پانچ چوٹیوں کی تاریخ پر نظر رکھنے والے عمران حیدر تھیم اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ بلند ترین چوٹیاں سردیوں میں سر کرنا کمرشلائز نہیں ہوسکتا اور یہ اب سر ہوچکی ہے تو کوہ پیماؤں کی اس میں دلچسپی کم ہو گئی۔

عمران حیدر نے بتایا کہ پچھلے سال موسم گرما میں دو ہزار کے قریب کوہ پیما آئے تھے اور پچھلے سال سردی میں کوئی دو ٹیمیں آئی تھیں جس میں پانچ چھ شرپا شامل تھے لیکن اس کے علاوہ کوئی نہیں آیا تھا۔

انہوں نے بتایا: ’کے ٹو کو 2021 میں نیپال کے شرپا نے سر کر لیا تھا تو اب وہ دلچپسپی ہی نہیں رہی اور نہ وہ کامیابی کا احساس رہا کیوں کہ وہ سر ہوچکی ہے۔‘

عمران حیدر نے بتایا امن و امن کی صورت حال کے حوالے سے بتایا کہ 2013 میں نانگا پربت پر شدت پسندوں کی جانب سے 11 کوہ پیماؤں کو مارا گیا اور اس واقعے کے چھ سات ماہ بعد اٹلی کے ایک کوہ پیما سردی میں آئے تھے تو کسی نے اس سے پوچھا کہ یہاں تو دہشت گردی ہوئی ہے تو آپ کیسے آئے ہیں؟

عمران حیدر کے مطابق انہوں نے اس کے جواب میں بتایا کہ ’کوہ پیمائی میں ہر ایک قدم اور ہر ایک لمحے پر خطرہ مول لینا ہوتا ہے تو دہشت گردی کا ڈر کیسے ہوگا او یہی وجہ ہے کہ میں سر کرنے آیا ہوں۔‘

انہوں نے بتایا کہ حکومت کی تبدیلی پچھلے سال اپریل میں ہوئی تھی اور اسی وقت ٹیمیں پہنچنا شروع ہوئی تھیں تو کیا اس وقت امن و امان کی صورت حال خراب نہیں تھی جب دو ہزار سے زائد کوہ پیما آئے تھے؟

عمران حیدر نے بتایا: ’جب خوف سے بالاتر ہو کر کوہ پیما آتے ہیں تو وہ امن و امان یا شدت پسندوں سے نہیں ڈرتے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ویزے کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

سردیوں میں چوٹیاں سر کرنے کے حوالے سے عمران حیدر نے بتایا کہ 2010 سے  2016 تک پاکستان میں سب سے زیادہ مہمات کی گئیں کیونکہ اس وقت پاکستان میں موجود 28 ہزار فٹ سے بلند ساری چوٹیاں سر نہیں ہوئی تھیں۔

انہوں نے مزید بتایا: ’اس کے بعد ایک ایک کر کے ساری چوٹیاں سر ہونا شروع ہوئیں اور کے ٹو او نانگا پربت کو بھی 2021 میں سر کر لیا گیا اور پھر کامیابی کا احساس ختم ہوگیا تو اب سردی میں مہمات میں کوہ پیما دلچپسی نہیں لیتے۔‘

ٹور آپریٹرز کیا کہتے ہیں؟

غلام محمد گلگلت میں بلیو سکائی ٹور گروپ کے مالک ہیں اور ہر سال بین الاقوامی کوہ پیماؤں کو کے ٹو سمیت دیگر چوٹیوں پر سر کرنے میں خدمات فرہم کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غلام محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ رواں برس کوئی بھی کوہ پیما سردی کے موسم میں کے ٹو سر کرنے نہیں آیا ہے۔

ان سے جب وجہ پوچھا گئی تو غلام محمد کا کہنا تھا کہ کوہ پیماؤں کے لیے ویزوں کے نظام کو مشکل بنا دیا گیا ہے تو سکیورٹی کلیئرنس میں اب وقت لگتا ہے اور ممکنہ طور ایک یہ بھی وجہ ہوسکتی ہے۔

انہوں نے بتایا: ’دوسری جانب حکومت کی طرف سے پرمٹ فیس کو تین گنا بڑھا دیا گیا یعنی پہلے فی کوہ پیما سے 900 ڈالر لیے جاتے تھے لیکن اب اس فیس کو تین ہزار ڈالر کردیا گیا ہے اور اس کا اثر کوہ پیماؤں پر بھی پڑے گا کیوں کہ ٹور آپریٹز یہ فیس کوہ پیما سے لیتے ہیں۔‘

غلام محمد نے بتایا کہ گرمی میں زیادہ کوہ پیما آتے ہیں لیکن اس مرتبہ لگتا ہے کہ فیس بڑھنے کی وجہ سے کوہ پیماؤں کی تعداد میں موسم گرما میں بھی کمی آئے گی کیوں کہ اگر پہلے کسی کوہ پیما کا مہم پر 20 ہزار ڈالر لگتے تھے تو فیس بڑھنے کی وجہ سے اب یہ خرچہ 25 ہزار تک بڑھے گا اور ملک میں مہنگائی بھی ہے اور ہوٹل وغیرہ کے اخراجات بھی بڑھ گئے ہیں۔

سردیوں میں روان برس ایک بھی کوہ پیما کے نہ آنے کی وجہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے گلگلت بلتستان کے وزیر سیاحت راجا ناصر علی خان سے رابطہ کیا لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل