سیاسی وابستگی کے الزامات: نگران کابینہ خیبر پختونخوا میں شفاف انتخاب کرا پائے گی؟

خیبر پختونخوا کی نگران کابینہ میں شامل افراد کا تعلق کسی نہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ضرور ہے اور ایسی صورت حال میں صوبے میں انتخابات کی شفافیت پر انگلیاں اٹھائی جا سکتی ہیں۔

صوبے یا وفاق میں نگران حکومت کی ذمہ داریوں میں سب سے اہم شفاف انتخابات کا انعقاد کرانا شامل ہوتا ہے اور اسی وجہ سے کیئر ٹیکر کابینہ میں غیر سیاسی افراد کو شامل کیا جاتا ہے (گورنر ہاوس پشاور)

خیبر پختونخوا کی نگران کابینہ میں مزید چار مشیروں کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ بعض کابینہ اراکین کو سیاسی وابستگی کے الزامات پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

صوبے یا وفاق میں نگران حکومت کی ذمہ داریوں میں سب سے اہم ذمہ داری الیکشن کمیشن کے زیر سایہ شفاف انتخابات کا انعقاد کرانا ہوتا ہے اور اسی وجہ سے نگران کابینہ میں غیر سیاسی افراد کو شامل کیا جاتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت موجودہ حزب اختلاف کی جماعتیں خیبر پختونخوا کی نگران کابینہ پر سیاسی وابستگی کے الزامات لگاتے ہوئے اسے وفاق میں برسر اقتدار پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی کابینہ قرار دیتے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں اراکین نگران کابینہ کی سیاسی وابستگیوں اور رشتہ داریوں کا جائزہ لیتے ہیں اور واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس کا کس سیاسی جماعت سے تعلق ہے۔ 

سید جرار حسین بخاری 

حالیہ چند دنوں کے دوران صوبائی کابینہ کا حصہ بننے والے مشیر برائے بہبود آبادی سید جرار حسین بخاری  پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر سید نیر حسین بخاری کے برخوردار ہیں۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے نیر حسین بخاری 2009 سے 2015 تک پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن رہ چکے ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف اس وقت کی اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم کی اس وقت وفاق میں حکومت ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی اس اتحاد کا ایک اہم حصہ ہے ہے، جبکہ گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی کا تعلق پی ڈی ایم میں شامل جمعیت علمائے اسلام سے ہے۔

رحمت سلام خٹک 

ضلع کرکے سے تعلق رکھنے والے مشیر برائے ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیم رحمت سلام خٹک 2018 کے انتخابات پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ سے انتخاب لڑ چکے ہیں، بعد ازاں جمیعت علمائے اسلام میں شامل ہوئے۔

ظفر محمود

جمعے کو صوبائی کابینہ میں بحیثیت مشیر برائے ثقافت، سیاحت اور عجائب گھر جگہ بنانے والے ظفر محمود کا تعلق بھی پاکستان مسلم لیگ ن سے ہے اور جماعت کے خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے ضلعی صدر ہیں۔

منظور خان آفریدی

منظور خان آفریدی نگران کابینہ میں وزیر برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ہیں اور منظور کا تعلق قبائلی ضلع خیبر سے ہے۔

سال 2018 کے عام انتخابات سے قبل ان کا نام نگران وزیر اعلیٰ کے لیے سامنے آیا تھا، تاہم ایسا ہو نہیں سکا۔

منظور آفریدی جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہوتے ہیں اور پی ٹی آئی کے سابق سینیٹر ایوب آفریدی کے چھوٹے بھائی ہیں۔

عدنان جلیل

دنان جلیل پشاور کی کاروباری شخصیات ہیں اور عوامی نیشنل پارٹی کے مرحوم سینیٹر حاجی محمد عدیل کے صاحبزادے ہیں۔

عدنان جلیل خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس کے رکن کی حیثیت سے اس تنظیم کے مختلف عہدوں پر رہ چکے ہیں اور صنعت کار ہونے کے باعث صوبائی گورنر حاجی غلام علی کے ساتھ ان کا قریبی تعلقات ہیں۔  

فضل الٰہی

فضل الٰہی بھی نگران کابینہ کا حصہ ہیں جن کا تعلق پشاور سے ہے اور چیمبر آف کامرس کے صدر رہ چکے ہیں۔ فضل الٰہی بھی گورنر حاجی غلام علی کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہوتے ہیں۔

بخت نواز

نگران کابینہ کے رکن بخت نواز کا تعلق بٹگرام سے ہے۔ بخت نواز ماضی میں بھی رکن صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ٹھیکیدار، بخت نواز کی سیاسی وابستگی جمیعت علمائے اسلام سے رہی ہے۔  

شاہد خان خٹک

نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے شاہد خٹک 2018 کے انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار تھے۔

محمد علی شاہ 

نگران کابینہ کے رکن محمد علی شاہ کا تعلق سوات سے ہے اور 2015 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر سوات کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے تھے جبکہ وہ پاکستان مسلم لیگ ن ضلع سوات کے ضلعی صدر بھی رہ چکے ہیں۔

محمد علی شاہ پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر امیر مقام کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہیں۔

سید حامد شاہ

سید حامد شاہ کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں سے ہے اور ماضی میں جمیعت علمائے اسلام کے رکن صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ سید حامد شاہ کے والد بھی سینیٹر رہ چکے ہیں جبکہ جمیعت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما اکرم خان درانی کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہوتے ہیں۔

شفیع اللہ

ضلع دیر بالا سے تعلق رکھنے والے شفیع اللہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما نجم الدین خان کے رشتہ دار ہیں۔

شفاف انتخابات ممکن ہیں؟

صحافی لحاظ علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داریوں میں شامل ہے تاہم انتخابات کے لیے لاجسٹک سپورٹ نگران حکومت فراہم کرتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’موجودہ نگران کابینہ میں شامل 20 اراکین میں سے جب 18 اراکین کی کوئی نہ کوئی سیاسی وابستگی ہو تو اس حالت میں شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کروانا مشکل ہو گا۔‘

لحاظ علی نے بتایا کہ اس کابینہ کے ہوتے ہوئے اگر انتخابات منعقد ہوں اور بعدازاں انتخابات کی شفافیت پر انگلی اٹھائی جائے تو وہ تنقید بجا ہو گی۔

’کیوں کہ موجودہ کابینہ غیر جانبدار نہیں ہے، بلکہ یہ ایک سیاسی کابینہ ہے۔‘

لحاظ علی کے مطابق، ’نگران کابینہ میں شامل اراکین کے نام سیاسی جماعتوں نے تجویز کیے اور اس کا مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ یہ وزرا انتخابات میں اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کو سپورٹ کریں۔‘ 

نگران کابینہ کے زیادہ اراکین کی وابستگی جمیعت علمائے اسلام سے ہے اور اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے اس جماعت کے صوبائی ترجمان عبدالجلیل جان سے رابطہ کیا، جنہوں نے کہا کہ نگران کابینہ میں شامل کیے گئے افراد کے نام ان کی جماعت نے تجویز نہیں کیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ’نگران کابینہ نگران وزیراعلیٰ اور گورنر نے مشاورت سے بنائی ہے، تو یہ سوال بھی ان سے بنتا ہے۔‘

گورنر اور وزیر اعلی خیبر پختونخوا کا موقف

اس معاملے پر جب خیبر پختونخوا کے گورنر حاجی غلام علی کے ترجمان امیر حسین سے رابطہ کیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ تو صوبائی حکومت کی کابینہ ہے تو گورنر کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا اس پر گورنر کا موقف نہیں لیا جانا چاہیے۔‘

بعد ازاں وزیر اعلی خیبر پختونخوا اعظم خان کے ترجمان زرولی سے جب اس معاملے پر موقف لینے کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’وزیر اعلی اس معاملے پر پہلے بھی موقف دے چکے ہیں کہ ان کے پاس مختلف جماعتوں سے نام آئے تھے اور جو مناسب لگے تو ان کو کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔‘

تاہم زرولی کے مطابق: ’سید جرار حسین جو پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر نیئر حسین بخاری کے بیٹے ہیں جہاں تک ان کی بات ہے تو وزیر اعلی نے اس معاملے پر بتایا ہے کہ اس کی چھان بین کریں گے کہ جرار حسین کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور خیبر پختونخوا کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست