امریکہ کی جانب سے پیر کو بیان جاری کیا گیا ہے کہ ایران میں سکول کی طالبات کو زہر دینے کے حالیہ واقعات کی تحقیقات اقوام متحدہ کے مینڈیٹ میں آ سکتی ہیں۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی نے بتایا کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق نومبر کے آخر سے اب تک ایران بھر کے 52 سے زائد سکولوں میں گیس والی زہر کے سینکڑوں واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
یہ کیسز 22 سالہ مہیسا امینی کی موت کے بعد شروع ہونے والے احتجاج کے پانچ ماہ بعد سامنے آئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرین جین پیئر نے ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے نومبر میں قائم کیے گئے ادارے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’اگر زہر دینے کے ان واقعات کا تعلق احتجاج میں شرکت سے ہے تو یہ ایران کے بارے میں اقوام متحدہ کے آزاد بین الاقوامی فیکٹ فائنڈنگ مشن کے مینڈیٹ کے اندر ہے۔‘
کیرین جین پیئر نے پریس کانفرنس کے دوران زہر دیے جانے کی مذمت کی اور اسے ’غیر عقلی اقدام‘ قرار دیتے ہوئے کہا، ’قابل اعتماد آزادانہ تحقیقات اور ذمہ داروں کا احتساب ہونا چاہیے۔‘
تین ماہ سے زائد عرصے سے ایران کی سینکڑوں خواتین طالبات نے ’ناگوار‘ یا ’نامعلوم‘ بدبو کے بعد سانس لینے میں دشواری یا متلی جیسی علامات کی شکایت کی ہے، جن میں سے کچھ لڑکیوں کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔
ان واقعات کی لہر سے والدین میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور انہوں نے حکام سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، نائب وزیر صحت یونس پناہی نے کہا ہے کہ حال ہی میں مشتبہ حملوں کا مقصد لڑکیوں کی تعلیم کو روکنا تھا۔ ایرانی حکام نے ابھی تک کسی کی گرفتاری کا اعلان نہیں کیا۔
’مجرموں کو سزائے موت ملنی چاہیے‘
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے پیر کو کہا کہ اگر لڑکیوں کے سکولوں میں مبینہ طور پر زہر دینے کا سلسلہ جان بوجھ کر کیا گیا تو مجرموں کو ’ناقابل معافی جرم‘ کے ارتکاب پر سزائے موت دی جانی چاہیے۔
یہ پہلا موقع ہے جب ایران کے سپریم لیڈر نے مشتبہ زہر دیے جانے کے متعلق عوامی طور پر بات کی ہے۔
ایرانی حکام نے حالیہ ہفتوں میں ان واقعات کا اعتراف کیا ہے اور اس بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں کہ ان کے پیچھے کون ہو سکتا ہے یا اگر کوئی کیمیکل استعمال کیا گیا ہے، تو کون سا۔
حکام نے اعتراف کیا ہے کہ نومبر سے اب تک ایران کے 30 میں سے 21 صوبوں میں 50 سے زائد سکولوں پر مشتبہ حملے کیے گئے ہیں۔
ایران کے وزیر داخلہ احمد وحیدی نے ہفتے کے آخر میں کہا تھا کہ تفتیش کاروں نے ’مشکوک نمونے‘ جمع کیے ہیں۔ انہوں نے عوام سے پرسکون رہنے کی اپیل کی اور نامعلوم دشمنوں پر الزام عائد کیا کہ وہ اسلامی جمہوریہ کو کمزور کرنے کے لیے خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں۔
وحیدی نے کہا کہ کم از کم 52 سکول مشتبہ زہر سے متاثر ہوئے ہیں، جبکہ ایرانی میڈیا رپورٹس میں سکولوں کی تعداد 60 سے زیادہ بتائی گئی ہے۔ مبینہ طور پر لڑکوں کا کم از کم ایک سکول متاثر ہوا ہے۔
ایران مذمت سے بچ جائے گا
سفارت کاروں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ’سنجیدہ یقین دہانی‘ کرانے کے بعد، ایران اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کی مزید مذمت سے بچ جائے گا۔
یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافیل گروسی کو ایران کی جانب سے اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ متعدد جوہری مقامات پر نگران کیمروں کو دوبارہ جوڑ دیا جائے گا اور معائنے کی رفتار بڑھا دی جائے گی۔
ویانا میں قائم آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس کے پہلے روز تین مغربی سفارتکاروں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر تنقید والی کوئی نئی قرارداد پیش کرنے کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا ہے کہ صرف الفاظ کافی نہیں ہیں۔
انہوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’ہم نے ایران کے مبہم وعدے دیکھے ہیں جن پر کبھی عمل نہیں کیا جاتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا، ’سب سے اہم بات ۔۔۔ ہمیں توقع ہے کہ ایران مشترکہ بیان کے مطابق فوری اور ٹھوس اقدامات کرے گا۔‘
لیکن بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافیل گروسی نے اس تاثر کو مسترد کر دیا کہ انہوں نے ایران سے صرف خالی وعدے لیے ہیں۔
انہوں نے ویانا میں نامہ نگاروں کو بتایا، ’یہ وعدے نہیں ہیں، ہمارے پاس کچھ ٹھوس معاہدے ہیں۔‘
رافیل گروسی نے گذشتہ ہفتے ایرانی حکومت کے ساتھ اپنی بات چیت میں ’نمایاں بہتری‘ کا خیر مقدم کیا۔
آئی اے ای اے کے سربراہ نے کہا کہ انہوں نے ایران کے ساتھ جن اقدامات پر اتفاق کیا، وہ تکنیکی وفد کے آئندہ دورہ تہران کے بعد ’بہت جلد‘ نافذ کیے جانے چاہئیں۔
تہران نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ وہ فورڈو زیر زمین پلانٹ میں مزید معائنے پر متفق ہے، جہاں اس قدر افزودہ یورینیم کے ذرات پائے گئے تھے کہ اسے ہتھیاروں میں استعمال کیا جا سکے۔