خیبر پختونخوا: مریضوں کے سہولت پروگرام میں ’بھاری فیسوں‘ کی وصولی

محمد ہارون کی طرح روزانہ ہزاروں مریض آئی بی پی سے مستفید ہونے کی غرض سے پشاور کے تین بڑے ہسپتالوں میں جاتے ہیں، جہاں انہیں سہولت کی بجائے ڈاکٹروں کے نجی کلینکس جتنا ہی خرچہ اٹھانا پڑتا ہے۔

خیبر ٹیچنگ ہسپتال پہنچنے پر محمد ہارون کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب ان سے 1500 فیس کا مطالبہ کیا گیا (انڈپینڈنٹ اردو) 

خیبر پختونخوا کے تین ہسپتالوں میں انسٹیٹیوشن بیسڈ پریکٹس (آئی بی پی) پروگرام میں سرکاری وسائل بروئے کار لائے جانے کے باوجود فیسیں نجی کلینکس جیسی ہی وصول کی جا رہی ہیں۔

اس حوالے سے ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے محمد ہارون نے بتایا کہ حال ہی میں وہ ایک بیمار رشتہ دار کو پشاور کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں علاج کروانے کے لیے لائے۔

خیبر ٹیچنگ ہسپتال پہنچنے پر محمد ہارون کے بقول ان کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب ان سے 1500 فیس کا مطالبہ کیا گیا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’میرا خیال تھا آئی بی پی کے تحت مریضوں کی سہولت کی خاطر فیس کم ہو گی، لیکن یہ ڈاکٹر تو وہی چارج کر رہے ہیں جو وہ ہسپتال سے باہر اپنے نجی کلینک میں لیتے ہیں۔‘

محمد ہارون کی طرح روزانہ ہزاروں مریض آئی بی پی سے مستفید ہونے کی غرض سے پشاور کے تین بڑے ہسپتالوں میں جاتے ہیں، جہاں انہیں سہولت کی بجائے ڈاکٹروں کے نجی کلینکس جتنا ہی خرچہ اٹھانا پڑتا ہے۔

آئی بی پی کیا ہے؟

آئی بی پی کہلائے جانے والے حکومتی پروگرام کے تحت پشاور کے تین بڑے ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کو صحت کے ان مراکز کے اندر ہی شام کی پریکٹس کے لیے سہولتیں مہیا کی گئی ہیں، جس کا مقصد مریضوں کی سہولت کے علاوہ ہسپتال کی آمدن میں اضافہ کرنا ہے۔

یہ پروگرام خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران 2015 میں صوبے کے بڑے ہسپتالوں (لیڈی ریڈنگ ہسپتال، خیبر ٹیچنگ ہسپتال سمیت حیات آباد میڈیکل کمپلیکس) کو خود مختاری دینے کے بعد شروع کیا گیا تھا۔

تاہم ڈاکٹروں کی نجی پریکٹس پر پابندی ہونے کے باعث بہت سارے سپیشلسٹس نے بھاری تنخواہوں کی آفر کے باوجود اس پروگرام میں شمولیت اختیار نہیں کی۔

آئی بی پی کے تحت اس وقت ڈاکٹر کی فیس چھ سو روپے مقرر کی گئی تھی، جو اب 15 سو سے دو ہزار کر دی گئی ہے۔

پشاور شہر کے تین بڑے ہسپتالوں میں تقریباً ڈھائی سو ڈاکٹرز آئی بی پی میں پریکٹس کر رہے ہیں۔

محمد ہارون نے اعتراض اٹھایا، ’ڈاکٹر سرکاری ہسپتال کے وسائل استعمال کر کے کمائی کر رہے ہیں، جو سراسر ناانصافی ہے۔‘

’اس پروگرام کے تحت صرف ڈاکٹروں کو فائدہ ہو رہا ہے، جبکہ مریضوں کی جیب سے وہی فیس نکالی جاری ہے، جو وہ باہر کسی ڈاکٹر کو کنسلٹیشن کی مد میں دیتے ہیں۔‘

آئی بی پی کے تحت ہر ڈاکٹر کے ساتھ ان کے اسسٹنٹ کی تنخواہ بھی ہسپتال ادا کرتی ہے۔

ہسپتال کا موقف

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے آئی بی پی انچارج اور گذشتہ آٹھ سال سے اسی پروگرام کے تحت پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر امیر محمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اپنے مشاہدے کا ذکر کرتے ہوئے دعویٰ کیا: ’میں نے نوٹ کیا ہے کہ اس سے مریضوں کو سہولت مل رہی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر امیر محمد سے نجی کلینکس اور آئی بی پی کی فیسوں میں کوئی فرق نہ ہونے کا دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر کی 1500 فیس میں سے 500 روپے ہسپتال کو جاتے ہیں، جبکہ 100 روپے ٹیکس کی مد میں کاٹ لیے جاتے ہیں۔

’یوں ڈاکٹر کو محض 900 روپے فیس ہی ملتی ہے، جو بہت مناسب ہے اور نجی کلینکس سے کم بھی۔‘

آئی بی پی کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا  کہ مریض کو ایک چھت تلے تمام سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جبکہ نجی لیبارٹریز میں ٹیسٹ کی کوالٹی کے مقابلے میں آئی بی پی میں کوالٹی بہتر ہے جبکہ مریضوں سے کمیشن لینے کا کانسپٹ بھی آئی بی پی میں نہیں ہے۔‘

حیات آباد میڈیکل کمپپلیکس کے آئی بی پی انچارج زین امان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اکثر سینیئر پروفیسرز کی فیس ایک ہزار یا 800 روپے ہے۔

تاہم بعض مریضوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں فیس کے ایک سے دو ہزار روپے کے درمیان ہونے کی تصدیق کی۔

خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے ترجمان محمد سجاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’آئی بی پی کا سرکاری خزانے پر کوئی بوجھ نہیں ہے کیونکہ آئی بی پی سے جو کمائی ہوتی ہے، اسی سے آئی بی پی سروسز میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہیں دی جاتی ہے اور اسی میں تمام تر اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔‘

سجاد نے بتایا: ’پروفیسرز دو ہزار روپے تک فیس لے سکتے ہیں جبکہ باقی ڈاکٹروں کی فیسیں ایک ہزار روپے ہی ہے، جن میں ہسپتال بھی کٹوتی کرتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت