سکولوں پر پابندی: افغان طالبات کے لیے مدرسے ہی واحد راستہ

افغان طالبان کی جانب سے خواتین پر سکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد نوعمر لڑکیاں مدارس میں داخلے لے رہی ہیں۔

13  اکتوبر 2022 کی اس تصویر میں کابل یونیورسٹی کے باہر طالبات قطار میں کھڑی ہیں (اے ایف پی)

اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پورے افغانستان میں مدارس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد نوعمر لڑکیاں یہاں داخلے لے رہی ہیں۔

ایسے ہی ایک مدرسے میں زیر تعلیم 16 سالہ فرح (نام تبدیل کیا گیا ہے) نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا: ’ہم افسردہ تھے کیونکہ ہمیں تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا گیا تھا۔‘

فرح نے مزید بتایا: ’اس کے بعد میرے گھر والوں نے فیصلہ کیا کہ مجھے کم از کم یہاں آنا چاہیے۔ اب ہمارے لیے صرف ایک ہی جگہ کھلی ہے اور وہ مدرسہ ہے۔‘

اے ایف پی نے کابل اور جنوبی شہر قندھار میں تین مدارس کا دورہ کیا، جہاں علما کا کہنا تھا کہ طالبات کی تعداد گذشتہ سال سے دگنی ہو گئی ہے۔

فرح وکیل بننا چاہتی تھیں لیکن ان کی یہ خواہش اس وقت ختم ہو گئی جب افغان طالبان نے پہلے تو لڑکیوں کو سیکنڈری سکول جانے سے روک دیا  اور بعدازاں خواتین کے یونیورسٹی جانے پر بھی پابندی عائد کردی۔

بقول فرح: ’ہر ایک کے خواب چکنا چور ہو گئے ہیں۔‘

پھر بھی فرح خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ ان کے والدین نے انہیں بالآخر کلاس میں شرکت کرنے کی اجازت دی ہے۔

افغان طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ  نے سینکڑوں نئے مدارس کی تعمیر کا حکم دیا ہے کیونکہ ان کی اسلامی امارت شریعت کی بنیاد پر قائم ہے۔

کابل میں حکام نے لڑکیوں کے سکولوں کی بندش کے لیے کئی عذر پیش کیے، جن میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ کلاسوں اور اسلامی یونیفارم کا نفاذ شامل تھے۔

حکومت کا اصرار ہے کہ اسکول دوبارہ کھول دیے جائیں گے۔

بین الاقوامی برادری نے ابھی تک افغان طالبان کی حکومت کا باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے اور اس کے پیچھے بنیادی نکتہ لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے بند کیا جانا ہے۔

طب کی تعلیم حاصل کرنے والی یونیورسٹی کی ایک سابق طالبہ حسنہ، اب قندھار کے ایک مدرسے میں پڑھاتی ہیں۔

انہوں نے کہا: ’یونیورسٹیوں میں پڑھنا مستقبل کی تعمیر میں مدد کرتا ہے، ہمیں اپنے حقوق سے آگاہ کرتا ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’مدارس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ یہ (لڑکیاں) یہاں پڑھ رہی ہیں کیونکہ وہ بے بس ہیں۔‘

مدارس کی تعلیمی صلاحیت پر شدید بحث ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مدارس اپنے طلبہ کو فائدہ مند روزگار کے لیے ضروری ہنر فراہم نہیں کرتے۔

ٹی وی چینلز پر مذہبی امور پر گفتگو کرنے والے ایک سکالر عبدالباری مدنی نے کہا: ’موجودہ حالات کے پیش نظر، جدید تعلیم کی ضرورت ایک ترجیح ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا: ’کوششیں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عالم اسلام پیچھے نہ رہے۔۔ جدید تعلیم کو چھوڑنا قوم سے غداری کے مترادف ہے۔‘

صوبہ قندھار کے محکمہ تعلیم میں اسلامیات کے سربراہ نعمت اللہ الفت کہتے ہیں کہ حکومت ’دن رات سوچ رہی ہے کہ مدارس کو کیسے بڑھایا جائے۔‘

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ خیال یہ ہے کہ ہم اس ملک کی نئی نسل کو اچھی تربیت، اچھی تعلیمات اور اچھی اخلاقیات کے ساتھ دنیا میں لا سکتے ہیں۔

ایسے ہی ایک مدرسے میں پڑھنے والی یلدا، جن کے والد ایک انجینیئر ہیں اور والدہ استاد تھیں، نے 15 ماہ کے اندر قرآن پاک حفظ کرلیا۔

16 سالہ یلدا نے اے ایف پی کو بتایا: ’ایک مدرسہ ڈاکٹر بننے میں میری مدد نہیں کر سکتا، لیکن یہ پھر بھی اچھا ہے۔ یہ ہمارے مذہبی علم کو بڑھانے کے لیے اچھا ہے۔‘

کئی لڑکیوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ مدرسے میں جانے سے کچھ حوصلہ ملتا ہے اور دوستوں کے ساتھ رہنے کا موقع ملتا ہے۔

ایک طالبہ سارہ نے بتایا: ’میں اپنے آپ سے کہتی ہوں کہ شاید ایک دن سکول کھل جائیں گے اور میری تعلیم دوبارہ شروع ہو جائے گی۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اب جب کہ سمارٹ فونز اور انٹرنیٹ ہیں، تعلیم حاصل کرنے کا واحد ذریعہ سکول نہیں ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین