پشاور: یتیم بچوں کا آغوش جہاں انہیں ’گھر کا ماحول‘ میسر ہے

الخدمت فاؤنڈیشن کے زیرانتظام ’آغوش‘ میں صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے وہ بچے زیر تربیت ہیں جن کے والد حیات نہیں ہیں اور ان کی تمام تر کفالت کی ذمہ داری اس ادارے کے ذمے ہے۔

’آغوش صرف افطار کا نام نہیں بلکہ یہاں پر بچوں کی تربیت کے لیے مختلف پروگراموں کے ساتھ ساتھ تعلیم کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔ یہاں بچوں کو ایسا ماحول فراہم کیا گیا ہے کہ وہ کسی قسم کی کمی محسوس نہ کریں۔‘

یہ کہنا تھا  ظہور محمد کا جو پشاور میں الخدمت فاونڈیشن کے زیر اہتمام چلنے والے کفالت گھر ’آغوش‘ کے رابطہ کار ہیں اور یہاں رہنے والے 98 سے زائد بچوں کی تربیت کے ذمہ دار ہیں۔

افطاری کا وقت قریب آ رہا ہے اور بچے افطار کی تیاری میں مصروف ہیں۔

کچن کے اندر کچھ بچوں کی شربت بنانے کی ذمہ داری ہے تو بعض سموسے، پکوڑے، اور فروٹ کو پلیٹ میں سجا رہے ہیں۔

آغوش میں صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے وہ بچے زیر تربیت ہیں جن کے والد حیات نہیں ہیں اور ان کی تمام تر کفالت کی ذمہ داری آغوش کے ذمے ہے۔

ظہور محمد نے بتایا کہ ’رمضان میں بچوں کے لیے ہر طرح کے کھانوں کا بندوبست کیا جاتا ہے اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ گھر جیسا ماحول ان کو فراہم کیا جائے اور آپ خود بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہاں پر افطاری کے لیے ہم نے مختلف اقسام کے کھانے تیار کیے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ آغوش کفالت گھر غیر سرکاری تنظیم الخدمت کے زیر اہتمام چلتا ہے اور اس کے اخراجات مخیر حضرات کے عطیات سے پورے ہوتے ہیں۔

ظہور نے بتایا کہ ’آج کل ایک بچے کو سپانسر کرنے کے لیے ماہانہ خرچ 15 ہزار روپے ہے۔ اس میں بچے کی تعلیم، کھانے پینے اور رہائش کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔‘

’یہ پاکستان کا دوسرا بڑا ادارہ ہے جس میں بچوں کی نرسری سے لے کر بارہویں جماعت تک تعلیم بھی سپورٹ کی جاتی ہے اور جب بچہ 18 سال تک پہنچ جاتا ہے تو پھر اس کی ذمہ داری گھر والوں کی ہوتی ہے۔‘

ظہور نے بتایا کہ ’ایسے بچے آغوش میں آنے کے اہل ہیں جن کے والد حیات نہ ہوں اور اس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ باپ کے سائے سے محروم بچوں کو ایک تربیت گاہ مہیا ہوسکے اور وہ معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔‘

بچوں کو تعلیم کس طرح دی جاتی ہے، اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ موجود بچے پشاور کے مختلف سکولوں میں زیر تعلیم ہیں اور ان تمام بچوں کی ٹیوشن فیس سمیت تمام تر تعلیمی اخراجات آغوش برداشت کرتا ہے۔

ظہور نے بتایا کہ ’کچھ بچے ایجوکیٹرز جیسے تعلیمی اداروں میں بھی زیر تعلیم ہیں اور ڈونرز کی جانب سے ان کی فیس بھر دی جاتی ہے جبکہ کچھ بچے پشاور کے دیگر اہم تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔‘

اسی عمارت میں ظہور کے مطابق بچوں کی رہائش کا بندوبست بھی موجود ہے اور ہر کمرے میں پانچ سے سات بچے رہائش پذیر ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد فرقان کا تعلق ضلع نوشہرہ سے ہے اور وہ تقریباً پانچ سال کے تھے جب ان کے ماموں نے 2014 میں ان کو آغوش میں داخل کروایا تھا۔

آغوش میں 10 سال گزارنے والے فرقان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پہلے جب مجھے داخل کروایا گیا تو میں بہت چھوٹا تھا اور اسی وجہ سے روتا بھی تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور یہاں پر اساتذہ کی پیار محبت کی وجہ سے عادت پڑ گئی۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’اب بہت خوش ہوں کیوں کہ یہاں پر ہمیں تمام تر سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔‘

’لائبریری، کمپیوٹر لیب سمیت ہر قسم کے کھیلوں کی سہولیات بھی موجود ہیں جبکہ عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ یہاں پر دینی تعلیم و تربیت بھی کی جاتی ہے۔‘

آغوش میں بچے کو کیسے سپانسر کیا جاتا ہے؟

آغوش پشاور کے سربراہ ظہور محمد نے بتایا کہ ’اگر آپ کسی بچے کو سپانسر کرنا چاہتے ہیں تو آغوش سے رابطہ کر کے دفتر تشریف لا سکتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا ’دفتر آ کر یہاں پر بچوں سے مل کر کوئی بھی بچہ سپانسر کر سکتا ہے اور سپانسر کرنے کے بعد وہ باقاعدہ اس بچے سے مل بھی سکتا ہے تاکہ ان کو پتہ چلے کہ ان کے پیسے درست طریقے سے خرچ ہورہے ہیں۔‘

ظہور نے بتایا کہ اب بھی رمضان میں سپانسر کرنے والے حضرات افطاری کے لیے آ کر ان بچوں سے ملتے ہیں اور ان کو پیار دیتے ہیں۔

’آج کل ایک بچے کی سپانسرشپ کی رقم ماہانہ 15 ہزار روپے ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ بچے کے اول سے آخر تک تمام اخراجات برداشت کریں بلکہ ایک یا ایک سے زائد ماہ کے لیے بھی کوئی شخص بچے کو سپانسر کر سکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا