اسرائیل سے تجارتی روابط کی تردید، تحقیقات کا فیصلہ: وزیر داخلہ

پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور ایک پاکستانی یہودی شہری کی جانب سے کھانے کی بعض اشیا اسرائیل برآمد کرنے پر پاکستان میں مختلف حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کے لیے برآمدات کی اجازت کسی کو نہیں دی گئی اور اس معاملے کی تحقیقات بھی کی جائیں گی۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا یہ ردعمل پاکستانی نژاد یہودی فشیل بن خالد کی جانب سے اس دعوے کے بعد سامنے آیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی غذائی اشیا کی پہلی کھیپ اسرائیلی مارکیٹوں میں برآمد کی گئی ہے، جن میں خشک میوہ جات اور کچھ مصالحے شامل ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’اس کی تحقیقات کر لیں گے لیکن ہماری حکومت نے کسی کو (اشیا اسرائیل برآمد کرنے کی) اجازت نہیں دی۔‘

انہوں نے کہا: ’معلوم یہ پڑ رہا ہے کہ پچھلی حکومت (سابق وزیراعظم عمران خان) نے کسی کو اجازت دی تھی ایسی، لیکن ہمارے نوٹس، معلومات اور انکوائری میں کوئی ایسی بات نہیں۔‘

سابق وزیراعظم عمران خان ماضی میں اسرائیل سے روابط بڑھانے کے الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں بلکہ گذشتہ برس مئی میں ایک جلسے سے خطاب میں انہوں نے موجودہ اتحادی حکومت پر اسرائیل سے روابط کا الزام عائد کیا تھا۔

ساحلی شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے فشیل نے رواں ہفتے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا تھا: ’بطور پاکستانی مجھے مبارک ہو کہ میں نے پاکستان کی خوردنی اشیا کی پہلی کھیپ اسرائیل کی منڈی میں برآمد کی۔‘

تاہم فشیل نے یہ واضح نہیں کیا کہ پاکستان سے یہ اشیا کیسے اسرائیل برآمد کی گئیں۔

فشیل کی اس ٹویٹ پر سوشل میڈیا پر ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آیا۔ ایک طرف جہاں بہت سے ٹوئٹر صارفین نے اس اقدام کی شدید مخالفت کی، وہیں چند ایک ایسے بھی تھے، جنہوں نے اسے سراہا اور فشیل کے اقدام کا خیر مقدم کیا۔

امریکن جیوش کانگریس نامی تنظیم نے اسرائیل اور پاکستان کے درمیان تجارت پر اپنے ردعمل میں کہا کہ اس سے خطے میں خوشحالی کے مواقع بڑھانے کے امکانات بڑھے ہیں۔

بیان میں کہا گیا: ’اس تجارتی لین دین میں پاکستان کے کاروباری مرکز کراچی کے پاکستانی یہودی تاجر فیشل بن خلد اور بیت المقدس اور حیفا شہروں کے تین اسرائیلی تاجر شامل تھے۔‘

اسرائیل برآمدات پر ردعمل اور تحقیقات کے مطالبات

پاکستانی خوردنی اشیا اسرائیل کی منڈیوں تک بھیجے جانے پر پاکستان میں بعض حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا اور بیانات میں شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔

پاکستان علما کونسل کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم کے مشیر برائے بین المذاہب ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جائیں۔

ان کا کہنا تھا: ’پاکستان کا تو اسرائیل سے کوئی تجارتی یا معاشی معاہدہ نہیں تو پھر یہ سامان کیا پاکستان سے براہ راست تل ابیب گیا ہے یا پاکستان سے کسی اور ملک لے جایا گیا اور وہاں سے اسرائیل گیا۔‘

حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ حقائق قوم کو پتہ چلنے چاہییں۔ ’پاکستان کا ایک واضح اور اصولی موقف ہے کہ جب تک فسلطینیوں کی ایک آزاد خود مختار ریاست قائم نہیں ہوتی اس وقت تک اسرائیل سے کسی بھی قسم کے تعلقات قائم نہیں کیے جائیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ یہ ایک فرد کا نجی عمل ہے لیکن اس کی تحقیقات ضرور ہونی چاہییں۔ یہ سامان براہ راست پاکستان سے اسرائیل گیا یا کسی اور ملک سے گیا ہے اور اب پاکستان کے نام سے (خبریں) پھیلائی جا رہی ہیں۔‘

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے رکن مشتاق احمد خان نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ پاکستان کی فلسطین سے متعلق دو ٹوک پالیسی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’کیا قومی موقف کے ہوتے ہوئے کوئی فرد/ادارہ قومی اصولوں کے خلاف اقدام اٹھاسکتا ہے۔

مشتاق احمد خان نے حکومت سے اس معاملے پر ’سخت ایکشن‘ لینے اور ’صورت حال سے قوم کو آگاہ کرنے‘ کا مطالبہ کیا۔

فشیل کون ہیں؟

فشیل بن خالد کا تعلق کراچی سے ہے اور 2019 میں انہیں بطور یہودی پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا گیا تھا۔ وہ سوشل پر بیانات میں اکثر پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تجارتی و سفاتی تعلقات کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔

لیکن رواں ہفتے کراچی میں فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے رہنماؤں نے ایک پریس کانفرنس میں اعتراض اٹھایا کہ ایک پاکستانی یہودی شہری کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ پاکستان اور اسرائیل تعلقات کا سفیر بن جائے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پریس کانفرنس میں پاکستانی یہودی شہری کی جانب سے اسرائیل تک پاکستانی اشیا کی برآمد کو ’نظریہ پاکستان اور قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات سے انحراف‘ قرار دیا۔

تیسرے ملک سے اسرائیل کو برآمدات

دوسری جانب وزارت تجارت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ پاکستان سے براہ راست نہ تو اسرائیل کو برآمدات ہو سکتی ہیں اور نہ ہی حال میں ایسا ہوا ہے۔

پاکستان کی وزارت تجارت کے اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ سامان کسی تیسرے ملک گیا اور وہاں سے آگے بھیجا گیا ’اس میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ یہاں سے کسی نے ایسا کیا ہو۔‘

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان سے کسی ملک کوئی سامان لے جایا جائے تو وہ وہاں سے کسی بھی ملک میں بھیجا جا سکتا ہے، جس پر پاکستان کا اختیار نہیں ہوتا۔

پاکستان اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا

پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو فلسطین کے حق میں نہ صرف اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اپنے شہریوں کو اسرائیل جانے سے قانونی طور پر منع کرنے کے لیے پاکستانی پاسپورٹ پر یہ عبارت بھی درج ہے:

’یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے دنیا کے تمام ممالک کے لیے کار آمد ہے۔‘

نہ صرف پاکستان کی حکومت بلکہ عوام بھی فلسطینی عوام اور فلسطینی کاز کے لیے اپنی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے آئے ہیں۔

اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف پرتشدد کارروائی کی بھی پاکستان کی جانب سے ہمیشہ پرزور مذمت کی جاتی رہی ہے، جس سے معاملے پر پاکستانی عوام کے جذباتی لگاؤ کی عکاسی ہوتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان