پشاور: فنکار کمیونٹی کا سکھ تاجر دیال سنگھ کے قتل کے خلاف احتجاج

 خیبر پختونخوا میں اقلیتوں کے حق میں فنکاروں کی جانب سے ہونے والا اپنی نوعیت کا یہ پہلا احتجاج تھا۔

دیال سنگھ کو 31 مارچ کو چند نامعلوم افراد نے پشاور میں واقع ان کے سٹور پر فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا (تصویر: اہل خانہ)

صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں گذشتہ شام (آٹھ اپریل) کو افطار کے بعد درجنوں فنکاروں نے پریس کلب کے سامنے سکھ تاجر دیال سنگھ کے قتل کے خلاف احتجاج کیا۔

خیبر پختونخوا میں اقلیتوں کے حق میں فنکاروں کی جانب سے ہونے والا اپنی نوعیت کا یہ پہلا احتجاج تھا۔

دیال سنگھ کو 31 مارچ کو چند نامعلوم افراد نے پشاور میں واقع ان کے سٹور پر فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔ اس واقعے کا مقدمہ اگرچہ درج ہو چکا ہے، تاہم مرکزی ملزمان تک رسائی تاحال نہیں ہوسکی ہے۔

اگرچہ خود دیال سنگھ کے خاندان نے ان کے قتل کے بعد کسی قسم کا احتجاج نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں سکھوں کے ساتھ پیش آنے والے  پچھلے واقعات کی طرح اس واقعے میں بھی پولیس اور حکومت سے کسی قسم کے انصاف کی امید نہیں ہے۔

تاہم دوسری جانب پشاور کی فنکار کمیونٹی نے احتجاج منعقد کرکے اقلیتوں خصوصاً سکھ برادری کے ساتھ یکجہتی کا پیغام دیا ہے۔

فنکار کمیونٹی نے اس موقعے پر اقلیتوں پر ظلم، خراب صورت حال اور سماجی رویوں پر مبنی شاعری ترنم میں پڑھی اور موم بتیاں جلائیں۔

خیبرپختونخوا کے فنکاروں کے حقوق کی تنظیم ’ہنری ٹولنہ‘ کے مطابق پشاور پریس کلب کے سامنے اکٹھے ہونے والے فنکاروں کی یہ تعداد 60 سے زائد تھی، جنہوں نے مختلف پیغامات پر مبنی بینرز اٹھا رکھے تھے۔

ہنری ٹولنہ کے صدر راشد احمد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دیال سنگھ نرم خو اور بہترین اخلاق کے مالک تھے، جو ہر رمضان میں کم نرخ پر سامان بیچتے تھے، لیکن جب وہ قتل ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ ان کے لیے کوئی نہیں نکلا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

راشد خان نے بتایا کہ سکھ کمیونٹی پشاور میں خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگی ہے اور اب تک کئی خاندان صوبہ پنجاب کوچ کرچکے ہیں۔

’ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ دیال سنگھ کا خاندان بھی یہ صوبہ چھوڑنے کا خیال ظاہر کر رہا ہے۔ ہم اپنے احتجاج کے ذریعے حکومتِ وقت اور ملکی اداروں پر اقلیتوں کا اعتماد بحال کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔‘

احتجاج میں شامل دیگر فنکاروں کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کا تعلق کسی بھی مذہب اور عقیدے سے ہو لیکن اسلام امن اور رواداری کا مذہب ہے اور وہ کسی بھی شخص کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔

دوسری جانب ضلعی سطح پر اقلیتوں کے چیئرمین اور سنگھ سبھا یوتھ کے چیئرمین پرویندر سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’موجودہ صورت حال سے سکھ کمیونٹی کے بزرگ خوفزدہ ہوگئے ہیں اور انہوں نے اپنی نوجوان نسل کو اس معاملے پر احتجاج نہ کرنے کی تاکید کی ہے۔‘

پرویندر سنگھ نے کہا کہ سکھ کمیونٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ پچھلے واقعات کو بھی ’عام واقعات اور ذاتی دشمنی‘ قرار دے کر دبا دیا گیا۔

’2017 سے لے کر اب تک یہ 28 واں واقعہ ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ ساتواں واقعہ ہے انہیں حقائق کا علم ہی نہیں ہے۔ حالیہ واقعے میں فوٹیج بھی سامنے آئی ہے لیکن پولیس کی کمزوری ہے کہ وہ مرکزی ملزمان تک نہیں پہنچ پائی ہے۔‘

پرویندر سنگھ کے مطابق پورے پشاور میں اس وقت تقریباً 1500 سکھ خاندان بس رہے ہیں، جبکہ ڈھائی سو کے قریب خاندان حالات سے گھبرا کر صوبہ پنجاب اور انڈیا کوچ کرچکے ہیں۔

دیال سنگھ کون تھے؟

دیال سنگھ کا خاندان پشاور میں تقسیم کے وقت سے آباد ہے۔

ان کی عمر کم وبیش 35 برس تھی اور ان کے تین بچے تھے۔ دیال سنگھ پشاور میں واقع دیر کالونی میں اپنا جنرل سٹور چلاتے تھے۔ ان کے شفقت بھرے رویے اور خصوصاً رمضان میں کم نرخ مقرر کرنے پر وہ اپنے علاقے کے مشہور دکاندار تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان