سرکاری ادارے سندھی ادبی بورڈ کے لوگو سے موہن جو دڑو کے دور کے بیل کی شبیہہ ہٹا کر سندھ کا نقشہ لگانے کے خلاف سندھ کے مختلف شہروں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر احتجاج کرکے لوگو (Logo) کی بحالی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
سندھ یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سے لوگو کی تبدیلی کے خلاف پیر (10 اپریل) کو سندھی ادبی بورڈ جامشورو کے مرکزی دفتر کے باہر احتجاج کی کال دی گئی ہے۔
اس سے قبل سندھی ادب کے لیے کام کرنے والی سندھی ادیبوں کی تنظیم سندھی ادبی سنگت کی جانب سے صوبے بھر میں احتجاج کی کال دی گئی، جس کے بعد جامشورو، نواب شاہ، نصیرآباد، جھول، مدئجی، اُڈیرو لال سٹیشن، ٹنڈو الہ یار، عمرکوٹ سمیت مختلف شہروں میں احتجاج کیا گیا۔
ان احتجاجی مظاہروں کے دوران سندھی ادبی بورڈ کے لوگو سے بیل کی شبِیہہ کو ہٹانے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مقررین نے مطالبہ کیا کہ تاریخی لوگو بحال کیا جائے۔
سندھی ادیب، محقق اور سندھی صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کے رسالے پر کام کرنے والے استاد لغاری نے کہا کہ موہن جو دڑو کے آثار سے ملنے والے تاریخی بیل کی شبیہہ والا لوگو تاریخی ہے، جو سندھ کی اصل ترجمانی کرتا ہے۔
استاد لغاری کی شائع ہونے والے 18 کتابوں میں سے 10 میں سرائیکی اور ڈھاٹکی زبانوں سمیت شاہ عبدالطیف بھٹائی کے 10 مختلف قلمی نسخے بھی شامل ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے استاد لغاری نے کہا: ’سندھی ادبی بورڈ سندھی ادب کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا تھا نہ کہ مذہبی کتب کی اشاعت کے لیے۔ لوگو کے حوالے سے سندھی ادبی بورڈ انتظامیہ کا کہنا کہ بیل کی شبیہہ مذہبی طور پر ممنوع ہے اس لیےاسے تبدیل کیا جارہا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ سندھ کا نقشہ لگانے سے اس میں موہن جو دڑو بھی آجائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا: ’اگر ایسا ہے تو دنیا کا نقشہ لگانے سے کیا دنیا بھر کی ثقافتوں کی نمائندگی ہوگی؟ اگر کل یہ لوگ کسی مذہبی نشان سے لوگو کو تبدیل کریں تو کیا یہ درست ہوگا؟ ہم کبھی ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ ‘
استاد لغاری کے مطابق سینکڑوں سالوں سے موہن جو دڑو کا بیل سندھ کی ثقافت کا حصہ رہا ہے۔ اس کو مذہبی بنیادوں پر تبدیل کرنا درست عمل نہیں ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ بیل والا لوگو بحال کیا جائے۔
سندھی ادبی بورڈ کی جانب سے گذشتہ کئی دہائیوں سے میگزین اور رسالے باقاعدگی سے جاری کئے جاتے ہیں۔ جن میں تین ماہی ’مہران‘ اور ماہوار ’گُل پھُل‘ اور ’سرتیوں‘ رسالے بھی شامل ہیں۔
استاد لغاری کے مطابق اس بار آنے والے مہران رسالے پر پرانے بیل والے لوگو کی بجائے سندھ کے نقشے والا نیا لوگو لگا ہوا تھا۔
’مذہبی بنیاد پر لوگو تبدیلی کی باتوں میں صداقت نہیں‘
سندھی ادبی سنگت نامی تنظیم نے مذہبی بنیادوں پر لوگو تبدیلی کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ غیر ضروری طور پر مسئلہ بنا کر ادبی بورڈ اور عوام کا وقت برباد کر رہے ہیں۔
سندھی ادبی بورڈ کے ترجمان میر علی شاہ نے سیکریٹری سندھی ادبی بورڈ گلبدن جاوید مرزا کا تحریری بیان انڈپینڈنٹ اردو کو بھیجا۔
گلبدن جاوید مرزا کے بیان کے مطابق لوگو کی تبدیلی کا مقصد صرف سندھ کو پروموٹ کرنا ہے اور اس کے پیچھے مذہبی مقاصد نہیں ہیں۔ ’جو لوگ اس معاملے کو مذہبی رنگ دے رہے ہیں، انہیں تمام سازشوں سے گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ ایسے حربے انتشار پھیلانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ‘
گلبدن جاوید مرزا کے مطابق :’بورڈ نے ہمیشہ سندھ، سندھ کی ثقافت اور تہذیب کو پروموٹ کیا ہے، جس کا ثبوت بورڈ کی جانب سے چھاپی گئی کتابیں ہیں۔ بورڈ نے سندھ کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت پر جنتی کتابیں شائع کرائی ہیں۔ وہ شاید کسی اور ادارے نے تاحال شائع نہیں کرائیں۔‘
ان کے مطابق: ’سندھی ادبی بورڈ نے حال ہی میں مرکزی دروازے کو جی ایم سید کے نام سے منسوب کرکے سندھ سے محبت کا اظہار کیا ہے۔ جہاں تک بیل کو لوگو میں استعمال کرنے کا سوال ہے تو تاحال ادبی بورڈ کے علاوہ کون سے ادارے نے بیل کو لوگو میں استعمال کیا ہے؟ بیل لگانے کا مقصد سندھ کو پروموٹ کرنا تھا اور اب لوگو میں سندھ کا نقشہ لگانا اور جی ایم سید کے نام سے دروازے کا نام منسوب کرنا بھی سندھ سے محبت اور شخصحیات کو پروموٹ کرنا ہے۔‘
سندھی ادبی بورڈ کے ترجمان میر علی شاہ کے مطابق یہ پہلی بار نہیں کہ سندھی ادبی بورڈ کے لوگو کو تبدیل کیا ہو۔
انڈپینڈنٹ اردو کو سندھی ادبی بورڈ کے ماضی میں تبدیل ہونے لوگوز بھیجتے ہوئے میر علی شاہ نے کہا کہ وقت بہ وقت لوگو تبدیل ہوتا رہا ہے۔
سندھی ادبی بورڈ کے قیام پر بات کرتے ہوئے معروف محقق اور تاریخ دان ڈاکٹر در محمد پٹھان نے کہا کہ 1940 میں سینٹرل بورڈ آف پروموشن آف سندھی لینگویج اینڈ لٹریچر کے نام سے اس بورڈ کیا قیام کیا گیا، اس بورڈ کا قیام اس وقت کے سندھ محکمہ تعلیم کے وزیر جی ایم سید کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ 1553 سے سندھی زبان میں نصاب کی کتابیں شائع ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ جبکہ 1955 میں سینٹرل بورڈ آف پرموموشن آف سندھی لینگویج اینڈ لٹریچر کا نام تبدیل کرکے سندھی ادبی بورڈ رکھا گیا۔