چھ روز پانی، خوراک کے بغیر جزیرے پر پھنسے ماہی گیروں کو بچا لیا گیا

ریسیکو حکام کے مطابق یہ بات ناقابل یقین ہے کہ ماہی گیر اتنے عرصے تک زندہ رہے۔

ماہی گیر بیڈویل جزیرے پر ریسکیو ہیلی کاپٹروں کو دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے ہیں (اے پی)

آسٹریلوی حکام نے انڈونیشیا کے 11 ماہی گیروں کو اس وقت بچا لیا جب وہ چھ دن تک خوراک اور پانی کے بغیر بحر ہند کے ایک چھوٹے سے صحرائی جزیرے پر پھنسے ہوئے تھے۔

آسٹریلین میری ٹائم سیفٹی اتھارٹی (اے ایم ایس اے) نے بتایا کہ ان ماہی گیروں کو  پیر کے روز مغربی آسٹریلیا کے شہر بروم کے ساحل سے 195 دور واقع بیڈ ویل نامی جزیرے سے نکالا گیا۔

تاہم خدشہ ہے کہ اس وقت تک دیگر نو ماہی گیر اپنی جان کی بازی ہار چکے تھے۔

ان ماہی گیروں کی کشتیاں گذشتہ ہفتے کئی سالوں میں اس خطے سے ٹکرانے والے سب سے خوفناک طوفانوں سے ایک ’مالسا‘ کا شکار بن گئی تھیں اور ماہی گیر اس بیابان جزیرے پر پھنس گئے تھے۔  

بارڈر سکیورٹی طیارے کو آسٹریلیا میں کیٹیگری فائیو کے طوفان کے بعد ان ماہی گیروں کا سراغ ایک نگرانی مشن کے دوران ملا۔ 

آسٹریلوی حکام نے تحقیقات کے لیے ریسکیو طیارے کا رخ موڑ دیا جس کے بعد ایک ریسکیو ہیلی کاپٹر کو ماہی گیروں کو بروم تک پہنچانے کا کام سونپا گیا۔

زندہ بچ جانے والے ماہی گیروں نے بتایا کہ ان کی دو بڑی کشتیاں تھیں جن میں سے ہر ایک پر عملے کے 10 افراد سوار تھے لیکن ایک کشتی طوفان سے ٹکرانے کے بعد غرق ہو گئی۔

دوسری کشتی کے عملے کے 10 ارکان میں سے نو لاپتہ تھے۔

ڈوبنے والی کشتی سے زندہ بچ جانے والے واحد شخص نے مبینہ طور پر 30 گھنٹے پانی میں گزارے جو اتنا عرصہ ایک جیری کین پر چمٹے رہے اور خوش قسمتی سے دوسری کشتی نے انہیں بچا لیا۔

آسٹریلوی حکام کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں ماہی گیروں کو ریسکیو ہیلی کاپٹر کی طرف ہاتھ لہراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جب کہ ان کی تباہ شدہ کشتی ساحل کے قریب کھڑی تھی۔

ہیلی کاپٹر فراہم کرنے والے ادارے پی ایچ آئی ایوی ایشن کے مینیجر گورڈن واٹ نے کہا کہ یہ ناقابل یقین ہے کہ ماہی گیر اتنے عرصے تک زندہ رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

واٹ نے نشریاتی ادارے آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن (اے بی سی) کو بتایا کہ ’یہ ان کے لیے واقعی مشکل رہا ہو گا۔ یہ واقعی ایک ویران خطہ ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ریسکیو ہیلی کاپٹر کے عملے کو کم حد نگاہ کی وجہ سے ریت پر اترنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کے بقول: ’ریسکیو مشن کے دوران انہیں ونچ ریکوریز کا سہارا لینا پڑا جو بذات خود ایک مشکل کام ہے۔ دن کے وقت کا مطلب یہ تھا کہ ریسکیو کے دوران عملے پر رات پڑ رہی تھی اس لیے انہیں اندھیرے میں تلاش کے لیے اندھیرے میں دیکھنے والی عینکوں کا استعمال کرنا پڑا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہ ظاہر تھا کہ ہیلی کاپٹر پر موجود سینسرز کا استعمال کرتے ہوئے ٹیم یہ شناخت کرنے میں کامیاب رہی کہ زندہ بچ جانے والے یہ اشارہ دے رہے تھے کہ انہیں پانی اور خوراک کی اشد ضرورت ہے۔‘

زندہ بچ جانے والوں کو بروم ہسپتال لے جایا گیا جہاں مشکلات کے باوجود ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔

توقع کی جارہی ہے کہ طوفان مالسا سے صرف انڈونیشیا کے لاپتہ ماہی گیروں کا ہی جانی نقصان ہوا ہے۔

بروم کے جنوب مغرب میں پلبرا علاقے کے ساحل کو عبور کرتے وقت اس طوفان کو کیٹیگری فائیو قرار دیا گیا تھا۔

طوفان کے دوران پلبرا ساحل سے دور ایک جزیرے پر 180 میل فی گھنٹے کی رفتار سے جھکڑ ریکارڈ کیے گئے۔ آسٹریلیا کے موسمیاتی بیورو کے آلات کے ذریعے ریکارڈ کیا گیا اب تک کا سب سے تیز رفتار جھکڑ تھا۔

اگرچہ یہ ابتدائی ریڈنگ ہے تاہم بیورو نے منگل کو کہا کہ اس نے 1999 میں پِلبرا ساحل پر سمندری طوفان ’وانس‘ کے قائم کردہ 166 میل فی گھنٹہ کے سابقہ ریکارڈ کو توڑ دیا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا