صادق سدپارہ: بلندیوں کا متوالا کس کام میں مصروف ہے؟

میرے اس سوال پر کہ پاکستان کے ہائی پوٹر اور کوہ پیما نیپالی شرپاز کی طرح دنیا کی 14 بلند چوٹیاں سر کرنے کیوں نہیں نکلتے تو صادق طنزیہ مسکرائے اور ان کے چہرے پر دکھ کی لکیر گہری ہو گئی۔

صادق سدپارہ اور ان کی لنڈے کے سامان کی دکان (عاشق فراز) 

سدپارہ مارکیٹ میں سکردو کی ٹیڑھی میڑھی تنگ گلی سے گزرتے ہوئے اچانک ایک دکان کا سامنا ہوگا جس کے کاؤنٹر کے پیچھے دیوار پر لگی تصاویر کسی اور ہی دنیا کی کہانیاں بیان کرتی ہیں۔

کسی تصویر میں نوکیلی چٹانوں پر برف میں دھنسا کوئی کوہ پیما اوپر چڑھنے کی جدوجہد کرتا نظر آتا ہے، تو کہیں کسی چوٹی کو فتح کرنے کے بعد سرشاری سے لبریز کوئی آئی سیک اور پاکستانی جھنڈا بلند کرتا دکھائی دیتا ہے۔

کسی اور تصویر میں احباب حل وعقد کے ہاتھوں تعارفی اسناد اور پھول وصول کر رہا ہے، تو کسی تصویر میں مشہور کوہ پیماؤں کے ساتھ خوش خوش کھڑا ہے۔

یہ تو صرف خلاصہ ہے۔ اصل کہانیاں تو دل میں دبی پڑی ہیں، بس کریدنے کی دیر ہے۔ یہ سب تصاویر حسن سدپارہ اور صادق سدپارہ کی ہیں، جو اس مارکیٹ میں دکان داری کرتے ہیں۔

صادق سدپارہ حیات ہیں جبکہ حسن چند سال پہلے جوانی میں ہی راہی ملک عدم ہو گئے۔ صادق کی دکان کے آس پاس کی دکانیں بھی لنڈے کے سامان سے بھری ہوئی ہیں، جہاں گرمیوں میں سیاحوں کا اور سردیوں میں گرم کوٹ اور جوتے خریدنے والے مقامی لوگوں کا رش رہتا ہے۔ 

صادق بھی سیکنڈ ہینڈ سامان فروخت کرتے ہیں۔ یہاں آنے والے عام گاہکوں کو خال ہی معلوم ہو گا کہ صادق کون ہیں؟ وہ کتنے بڑے مہم جو ہیں اور انہوں نے جان پر کھیل کر کون کون سے مشہور بلند و بالا پہاڑ سر کر رکھے ہیں۔

دکان داری ان کی مجبوری ہے کیونکہ گھر بھی چلانا ہے مگر ان کی مہارت کسی اور میدان میں ہے۔ ان کا دل کہیں اور اٹکا ہوا ہے۔ 

سدپارہ گاؤں کے جواں مردوں کے بغیر سلسلہ قراقرم میں کوہ پیمائی کی کوئی بھی مہم کامیاب ہونا ممکن نہیں۔

اس گاؤں سے گائیڈ، پورٹر، ٹرئیکر اور کوہ پیماؤں کی ایک بڑی تعداد کئی دہائیوں سے بڑی بڑی کوہ پیمائی کی مہمات کا حصہ رہی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔

1950 سے پہلے کے دورانیے کو چھوڑ کر آگے بڑھیں تو 1954 میں اٹلی کے کوہ پیماؤں کی ایک ٹیم نے پہلی بار کے ٹو چوٹی  سر کی۔

اس کامیابی کے بعد یقین کرلیا گیا کہ اس پہاڑ کی چوٹی تک جایا جاسکتا ہے، ورنہ اس سے پہلے کئی مہمات نہ صرف بری طرح ناکام ہو گئی تھیں بلکہ کچھ میں تو کئی جانیں ضائع ہوئیں اور یہ سمجھا گیا کہ چوٹی پر دیوتاؤں کا بسیرا ہے اور وہ اجازت نہیں دے رہے۔

اس فتح میں جہاں ہنزہ کے بے مثال پورٹر تھے وہیں پر سدپارہ کے اسد، تقی اور محمد علی بھی تھے۔ اس مہم کی داستان کئی کتابوں میں لکھی گئی ہے جبکہ فلم بھی بن چکی ہے۔

خاص بات اس مہم کی یہ ہے کہ اس میں پورٹر کے سردار وزیر صادق تھے، جو بعد ازاں اپنی لیاقت اور سیاست کی وجہ سے گلگت بلتستان میں مقبول و معروف ہوئے۔

اسد رشتے میں صادق سدپارہ کے چچا اور تقی تایا لگتے ہیں۔ تقی بعد ازاں حاجی تقی ہوئے۔ انہیں 1954 کی مہم میں بہادرانہ خدمات کے عوض ’بلتی ٹائیگر‘ کا میڈل دیا گیا۔ یوں حسن اور صادق کو کوہ پیمائی کا شوق گھر سے ورثے میں ملا۔

ان کا شوق اس وقت فزوں تر ہوتا جب کوہ پیمائی کا سیزن شروع ہوتے ہی ان کے گاؤں کے جوان رنگ برنگی جیکٹوں میں ملبوس، کاندھے پر رک سیک چڑھائے اور لمبے تسموں والے ٹریکنگ شوز پہن کر سکردو کا رخ کرتے اور وہاں سے ایکسپیڈیشن ٹیموں کے ساتھ اونچے اونچے پہاڑوں کی جانب رخت سفر باندھتے۔

واپسی پر ان کے ہاتھوں اور چہروں کی جلد مرجھا جاتی اور ان کے جوتوں کا رنگ پھیکا پڑ جاتا مگر ان کی آنکھوں میں چمک زیادہ اور زبان میں مہم کی کئی دلچسپ کہانیاں ہوتیں، جنہیں وہ گاؤں کے چوپال میں مزے مزے سے سنایا کرتے۔

انہی سنسنی خیز کہانیوں کو سن کر صادق بھی اپنے بھائی حسن کی طرح رشک کرتے کہ کب وہ اس قابل ہوں کہ پہاڑوں پر جا سکیں اور پھر فخر سے گاؤں میں اپنی کہانی سنا سکیں۔

بالآخر وہ دن آ گیا جب صادق کی دلی مراد پوری ہوئی اور 1990 میں صادق ایک عام پورٹر بن کر کے ٹو بیس کیمپ تک گئے اور غالباً ایکسپیڈیشن ٹیم اٹلی کی تھی۔

حسن اس سے پہلے جا چکے تھے لہٰذا انہوں نے صادق کی پیٹھ تھپ تھپائی اور حوصلہ دیا۔

صادق کو اپنی پہلی ٹریکنگ ابھی بھی یاد ہے گو اس سفر میں انہیں بوجھ اٹھا کر چلنا بہت کٹھن کام لگا مگر ان کا من سرشاری سے بھر گیا تھا کیونکہ اب گاؤں کے چوپال میں وہ بھی فخر سے کہہ سکتے تھے کہ وہ بھی کے ٹو تک ہو کر آئے ہیں۔

صادق نے من میں کچھ اور ٹھان رکھی تھی لہٰذا پورٹرنگ کے کام کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے بڑے بھائی حسن سے کوہ پیمائی کے گر سیکھنا شروع کیے۔

بھائی نے انہیں رسی کی مدد سے سفیدے کے درخت چڑھنے کے علاوہ سدپارہ گاؤں کے قرب و جوار میں موجود پہاڑوں میں مختلف انداز سے چڑھنے کی مشق کرائی۔

یہی ان کا مکتب تھا اور یہی ان کی تربیت گاہ بھی۔ ان کا جنون انہیں نچلا بیٹھنے نہیں دے رہا تھا اور یوں دو سال بعد 1999 میں وہ بطور ہائی پورٹر گشہ بروم ٹو(G-1)  پہاڑ سر کرنے والی اطالوی ٹیم کے ساتھ مہم پر گئے اور پہاڑ سر کرلیا۔

گشہ بروم ون سر کرنے کے بعد ان کا عزم اور بھی پختہ ہوگیا۔ ان کے قدموں میں کبھی بھی لغزش نہیں آئی۔

وہ ایک کے بعد دوسری چوٹی سر کرتے گئے۔ صادق سدپارہ نے 8068 میٹر بلند گشہ بروم ون دو دفعہ سر کی اور 8035 میٹر بلند گشہ بروم ٹو کو چار سے زائد مرتبہ سر کیا۔

انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ سپنٹک پیک پر اپنے قدم جمائے اور اس سے بڑھ کر قاتل پہاڑ 8125 میٹر بلند ننگا پربت کو بھی اپنے قدموں سے شکست دی۔

صادق کا جنون یہی پر نہیں ٹھہرا بلکہ دو آتشہ ہوتا گیا۔ انہوں نے براڈ پیک8047 میٹر بلند پر اپنے نقش پا ثبت کیے اور پھر آگے بڑھ کر 2014 میں 8611 میٹر بلند کے ٹو کو نکیل ڈالی۔

یہ تو صرف مختصر خلاصہ ہے۔ ان متذکرہ بالا کامیابیوں کے علاؤہ صادق نے درجنوں دیگر مہمات میں حصہ لیا، جن میں انہوں نے دوسرے کوہ پیماؤں کو کئی مشہور پہاڑ سر کرنے میں تکنیکی معاونت فراہم کی۔

وہ ریسکیو کے کئی مرحلوں میں شامل رہے اور اس ضمن میں پاکستان فوج کی مدد کی۔

صادق کا جنون انہیں ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ تک لے گیا، مگر سازو سامان اور رائلٹی کی رقم نہ ہونے کے سبب وہ اس پہاڑ کو سر کرنے کی حسرت لیے واپس لوٹ آئے۔

صادق کا کہنا ہے کہ بڑی بڑی ایکسپیڈیشن ٹیمیں اپنے ساتھ نیپالی شرپا ساتھ لاتی ہیں حالانکہ سدپارہ اور ہوشے کے ہائی پورٹر اس کام کے لیے زیادہ موزوں اور آسانی سے دستیاب ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ نیپال نے سیاحت کو سنجیدگی سے لیا ہے، لہٰذا وہاں چار سے زائد ماؤنٹیرنگ سکول قائم ہیں، جہاں نوجوانوں کو کوہ پیمائی اور ٹورازم مینیجمنٹ کی تکنیکی تربیت دی جاتی ہے اور ان کی سرٹیفیکیشن ہوتی ہے۔

یوں دنیا بھر کے کوہ پیما ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، صادق کا کہنا تھا، پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے عملاً کچھ کام نہیں ہوتا، صرف زبانی جمع خرچ کیا جاتا ہے حتیٰ کہ ایک ماؤنٹیرنگ سکول تک موجود نہیں۔

گلگت بلتستان اپنے فطری حسن اور خاص کر ایڈونچر ٹورازم کے حوالے سے ممتاز اور منفرد ہے مگر یہاں پر بھی سیاحت کی بڑھوتری کے حوالے کچھ کام نہیں ہوا۔

میرے اس سوال پر کہ سدپارہ اور ہوشے کے ہائی پوٹر اور کوہ پیما بھی نیپالی شرپاز کی طرح دنیا کی 14بلند  چوٹیوں کو سر کرنے کیوں نہیں نکلتے تو صادق طنزیہ مسکرائے اور ان کے چہرے پر دکھ کی لکیر گہری ہو گئی۔

صادق نے بتایا کہ بلتستان کے ہائی پورٹرز کا کوئی والی وارث نہیں، یہ سب نہایت غریب لوگ ہیں اور گھر کی کفالت کے لیے ہر طرح کی مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔

ان کے لیے نہ لائف انشورنس کا انتظام ہے اور نہ ہی اپنے طور پر climbing gear خرید سکتے ہیں۔

اور تو اور اگر کسی وجہ سے بین الاقوامی سیاح کسی سال نہ آئے یا کم تعداد میں آئے تو ہائی پورٹر اور مقامی کوہ پیماؤں کو گھر والوں کی کفالت کے لیے کوئی اور طرح کی مزدوری ڈھونڈنا پڑتی ہے۔

بلتستان کے جتنے بھی ہائی پورٹر ہیں انہوں نے اپنی مدد آپ کلائمبینگ سیکھی، کوئی سکول تو ہے نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقامی کوہ پیماؤں اور ہائی پورٹرز کی سرٹیفیکیشن نہیں لہٰذا انہیں نہ تو سپانسر ملتا ہے اور نہ ہی بین الاقوامی سطح کے گروپ انہیں آسانی سے ہائر کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ محکمہ سیاحت اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ نہیں ہو رہا۔

صادق پھر بھی پرعزم ہیں کہ اگر ان کی حکومتی اور نجی سطح پر مدد کی جائے تو وہ پانچ ماہ کی قلیل مدت میں 14 بلند پہاڑ سر کرکے پاکستان کے لیے ریکارڈ قائم کر سکتے ہیں۔

صادق سمیت کئی دوسرے مقامی کوہ پیما ہیں جو ہماری قومی بے حسی کا شکار ہو رہے ہیں۔

ان کی نہ تو صوبائی سطح پر پذیرائی کی جا رہی ہے اور نہ ہی ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ملکی سطح کا کوئی ایوارڈ دیا گیا۔

صادق اور دیگر دوسرے معروف مقامی کوہ پیمائی کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر نئی نسل کو کلائمبنگ کی ترغیب اور تربیت دی جاسکتی ہے۔

یوں نہ صرف ٹوارزم کو فروغ دیا جا سکتا ہے بلکہ روزگار کے باوقار مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں — مگر یہاں کس کو فکر ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ