دنیا کا ’قدیم ترین درخت‘ جو ’زمین کے راز‘ جانتا ہے

جنوبی چلی کے جنگل میں ایک دیوہیکل درخت ہزاروں سال سے موجود ہے جو دنیا کا قدیم ترین درخت تسلیم کیے جانے مرحلے میں ہے۔

جنوبی چلی کے جنگل میں ایک دیوہیکل درخت ہزاروں سال سے موجود ہے جو دنیا کا قدیم ترین درخت تسلیم کیے جانے مرحلے میں ہے۔

یہ درخت ’پڑدادا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ درخت کا تنا چار میٹر (13 فٹ) چوڑا ہے اور اس کی اونچائی 28 میٹر ہے۔

اس درخت  کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ اس میں ایسی سائنسی معلومات موجود ہیں جو اس بات پر روشنی ڈال سکتی ہیں کہ زمین نے خود کو موسمی تبدیلیوں کے ساتھ کس طرح تبدیل کیا۔

اس درخت کو پانچ ہزار سال سے زیادہ پرانا مانا جاتا ہے۔ یہ زمین کے سب سے قدیم درخت میتھوسیلہ کی جگہ لینے والا ہے۔

آسٹرل یونیورسٹی اور چلی کے مرکز برائے موسمیاتی سائنس اور مزاحمت کے محقق اور درخت کی عمر کا تعین کرنے والی ٹیم کے رکن انتونیو لارا کا کہنا ہے کہ ’اس (درخت) نے اپنا وجود قائم رکھا ہے اور کسی دوسرے (درخت) کو اتنے طویل عرصے تک قائم  رہنے کا موقع نہیں ملا۔‘

پڑدادا نامی درخت چلی کے دارالحکومت سنتیاگو کے جنوب میں 800 کلومیٹر (500 میل) کے فاصلے پر جنوبی علاقے لوس ریوس  کے ایک جنگل میں کھائی کے کنارے پر موجود ہے۔

فٹزرویا کپریسوئڈیز (Fitzroya cupressoides) نامی درخت صنوبر کی ایک قسم جو براعظم جنوبی امریکہ کے جنوب میں پائی جاتی ہے۔

’دنیا کے قدیم ترین درخت‘ کے ساتھ تصویر کھنچوانے کے لیے حالیہ سالوں میں سیاح جنگل میں ایک گھنٹہ پیدل چل کر اس جگہ پر پہنچے جہاں یہ درخت موجود ہے۔

درخت کی بڑھتی ہوئی شہرت کی وجہ سے تحفظ جنگلات کے قومی ادارے کو جنگلات کی حفاظت کرنے والے عملے کی تعداد میں اضافہ کرنا پڑا اور پڑدادا کی حفاظت کے لیے اس تک رسائی محدود کر دی گئی۔ اس کے برعکس، میتھوسیلہ کا درست مقام خفیہ رکھا گیا ہے۔

اس درخت کو پیٹاگونین صنوبر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ جنوبی امریکہ میں درختوں کی سب سے بڑی قسم ہے۔

یہ درختوں کی دوسری انواع کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئیگوئے، پلم پائن اور ٹیپا۔ اس جگہ ڈارونز فروگ، چھپکلیاں، چکاؤ ٹپاکولو چڑیاں اور چلی کے باز بھی پائے جاتے ہیں۔

صدیوں تک درختوں کے موٹے تنے کو مکانات اور بحری جہاز بنانے کے لیے کاٹا جاتا رہا ہے۔ 19 ویں اور 20 ویں صدی میں بڑی تعداد میں درخت کاٹے گئے۔

سائنس دانوں کا جوش وخروش

پارک وارڈن اینیبل ہنریکیز نے 1972 میں جنگل میں گشت کے دوران یہ درخت دریافت کیا۔ وہ 16 سال بعد اسی جنگل میں گھوڑے پر گشت کرتے ہوئے دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے۔

ان کی بیٹی نینسی ہنریکیز جو خود پارک وارڈن ہیں نے کہا کہ ’وہ نہیں چاہتا تھے کہ لوگوں اور سیاحوں کو معلوم ہو کہ مذکورہ درخت (کہاں ہے) کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ یہ بہت قیمتی ہے۔‘

ہنریکیز کے بھتیجے جوناتھن بارچی وِچ، فٹزرویا کے درختوں کے درمیان کھیلتے ہوئے پلے بڑھے اور اب ان سائنس دانوں میں سے ایک ہیں جو انواع کا مطالعہ کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 2020 میں بارچی وچ اور لارا  نے اس وقت موجود سب سے بڑی دستی ڈرل کا استعمال کرتے ہوئے پڑدادا کے تنے سے نمونہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن وہ اس کے مرکزی حصے تک نہیں پہنچ سکے۔

انہوں نے اندازہ لگایا کہ ان کا نمونہ 2400 سال پرانا ہے۔ انہوں نے درخت کی پوری عمر کا حساب لگانے کے لیے پیشن گوئی کرنے والا ماڈل استعمال کیا۔

بارچی وِچ نے کہا کہ 80 فیصد امکانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ درخت 5000 سال پرانا ہوگا۔ انہیں جلد ہی نتائج شائع کرنے کی جلدی ہے۔

اس تحقیق نے سائنس دانوں کی برادری کے اندر جوش پیدا کر دیا ہے کہ ڈینڈرو کرونولوجی یا درختوں کے اگنے کے وقت سے ان کی عمر کے تعین کا طریقہ، جب پرانے درختوں کی بات آتی ہے تو کم درست ثابت ہوتا ہے کیوں کہ بہت سے درختوں کا اندرونی حصہ بوسیدہ ہو جاتا ہے۔

مزاحمت کی علامات

 یہ صرف ریکارڈ کی کتابوں میں شامل ہونے کے مقابلے سے بڑھ کر ہونے کی بات ہے کیوں کہ پڑ دادا قیمتی معلومات کا ایک ماخذ ہے۔

لارا کے بقول: ’اور بھی بہت سے وجوہات ہیں جن کی بنا پر یہ درخت قیمتی ہو جاتا ہے جس کی حفاظت کی ضرورت ہے۔‘

کرہ ارض پر ہزاروں سال پرانے درخت بہت کم ہیں۔

بارچی وچ کا کہنا تھا کہ ’قدیم درخت جینز اور بہت ہی خاص تاریخ کے مالک ہوتے ہیں کیوں کہ وہ وجود کو قائم رکھنے اور حالات میں ڈھلنے کے عمل کی علامت ہوتے ہیں۔ وہ فطرت کے بہترین اتھلیٹ ہیں۔‘

آسٹریل یونیورسٹی میں ڈینڈرو کرونولوجی اور گلوبل چینج لیبارٹری میں معاون محقق کارمن روڈریگیز نے کہا کہ وہ ’ایک کھلی کتاب کی طرح ہیں اور ہم ان قارئین کی طرح  جو ان کے ہر صفحے کو پڑھتے ہیں۔‘

یہ صفحات چوڑائی کے لحاظ سے خشکی اور برسات کے سالوں کو ظاہر کرتے ہیں۔

ان صفحوں میں آگ اور زلزلے بھی ریکارڈ ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر تاریخ کا سب سے طاقتور زلزلہ جو اس علاقے کو 1960 میں آیا۔

پڑدادا کو ایک ٹائم کیپسول بھی سمجھا جاتا ہے جو ماضی میں کھڑکی کھول سکتا ہے۔

بارچی وچ کے بقول: ’اگر یہ درخت غائب ہو جائیں تو ایک اہم کلید بھی غائب ہو جائے گی کہ زندگی کس طرح خود کو کرہ ارض پر ہونے والی تبدیلیوں میں ڈھالتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات