کمیونٹی پولیسنگ: ہیوسٹن کے پاکستانی نژاد اسسٹنٹ پولیس چیف

محکمہ پولیس میں پاکستانی انداز میں کسی قسم کی سفارش سامنے آنے سے متعلق سوال پر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ’یہ چیز توچلتی رہتی ہے لیکن یہ امریکہ ہے آپ کو انتہائی محتاط رہنا پڑتا ہے۔۔

آٹھ سال کی عمر میں اوکاڑہ سے امریکہ آنے والے یاسر بشیر نے کرمنالوجی میں ماسٹرز کرکے ہیوسٹن پولیس میں روزگار حاصل کیا اور اپنی محنت قابلیت اور ایمانداری کی وجہ سے جلد ہی ترقی پاکر ہیوسٹن پولیس کے محکمے میں اسسٹنٹ پولیس چیف کے عہدے تک پہنچے۔

یاسر بشیر کی جدوجہد کی داستان امریکہ میں درخشاں مستقبل کا خواب دیکھنے والے پاکستانی نژاد امریکی نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

محکمہ پولیس میں دوران ملازمت درپیش چیلنجز سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’ہم دیگر پیشہ ورانہ فرائض کے علاوہ کمیونٹی پولیسنگ سے بھی وابستہ رہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ہم کمیونٹیز کے لیے کام کرتے ہیں ان کے مختلف مسائل پر بھی توجہ دیتے ہیں جو کہ معاشرے سے جڑے مسائل ہیں جن کے لیے ہم کمیونٹی کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں مثال کے طور پر بے گھر افراد کا مسئلہ ہے ان کے نفسیاتی اور دیگر مسائل ہوتے ہیں۔ بے گھر ہونا کوئی جرم نہیں ہے اور نہ ہی اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہم ان کو جیل میں بند کردیں۔

’جہاں تک پاکستانی کمیونٹی کا سوال ہے تو میں بذات خود کمیونٹی کے لوگوں سے ملتا ہوں ان کی تقریبات میں شریک ہوتا ہوں تاکہ کمیونٹی کے مسائل اور رحجان کو جان سکوں تاہم میں تاحال سیکھنے کے عمل سے گزررہا ہوں تجربات حاصل کر رہا ہوں۔‘

محکمہ پولیس میں پاکستانی انداز میں کسی قسم کی سفارش سامنے آنے سے متعلق سوال پر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ’یہ چیز توچلتی رہتی ہے لیکن یہ امریکہ ہے آپ کو انتہائی محتاط رہنا پڑتا ہے کیوں کہ یہاں کبھی ’فیور‘ دینا اور لینا مہنگا بھی پڑ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی افسر کو پروموٹ کرنے کی سفارش کی جاتی ہے اور وہ اس عہدے کا اہل نہیں ہے تو اس کو پروموٹ کرناغلط ہوگا کیونکہ وہ بھی ہمیشہ اس احساس میں رہے گا کہ کسی نے اس کی سفارش کی تھی اس لیے بہتر ہوتا ہے کہ ایسے شخص کو رہنمائی فراہم کی جائے تاکہ وہ پروموشن کا اہل بن سکے۔‘

ان سے جب پوچھا گیا کہ کم عمری میں امریکہ آنے کے بعد کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو ان کا کہنا تھا کہ ’آٹھ سال کی عمر میں پاکستان کی گلیوں میں کھیلتے کھیلتے اچانک نئے ماحول میں آجانے کے بعد کئی چیلنجر کا سامنا رہا۔ پہلا تو یہ ہی تھاکہ بچپن میں حرام اور حلال کا تصور پختہ نہیں تھا اس لیے سب بچے جو چاکلیٹ کھا رہے ہوتے تھے وہ ہی کھانے کا دل کرتا تھا جب سٹورز پر جاکر چاکلیٹ اٹھا لیتا تھا تو والدہ چھین کر واپس رکھ دیتی تھیں کیونکہ اس میں ’پورک‘ کے اجزا ہوتے تھے اس پر والدہ سے لڑائی ہوجاتی تھی۔

’تاہم سب سے بڑا چیلنج زبان کا تھا انگریزی زبان سے واقفیت نہیں تھی اس لیے اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ گھلنے ملنے میں زبان سے ناواقفیت آڑے آتی تھی جس سے مسئلہ ہوتا تھا لیکن وہ ایک سیکھنے کا دور تھا جو گزر گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بحیثیت اسسٹنٹ پولیس چیف آف ہیوسٹن محکمہ کے پانچ پیٹرولنگ سمیت چھ ڈویژن کنٹرول کرنے والے یاسر بشیر نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ وہ فنانس کے شعبے میں تعلیم حاصل کررہے تھے لیکن تین سال کی تعلیم کے بعد اپنا ذہن تبدیل کرلیا اور کرمنالوجی میں ماسٹرز کر کے پولیس فورس میں شمولیت اختیار کرلی۔

’اب میری ماتحتی میں ایک مینٹل ڈویژن بھی اور میری حدود میں ساؤتھ۔ ویسٹ ہیوسٹن کا ایریا آتا ہے اور کمیونٹیز سےملاقاتوں سمیت شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا بھی میری اولین ذمہ داری ہے۔ گوکہ 23 سالہ ملازمت میں ابتدا کے تین چار سال بڑے سنسنی خیز اور مزیدار تھے لیکن اب عہدہ بڑا ہے تو ذمہ داریاں مختلف ہیں۔‘

پولیس فورس میں کیوں شمولیت اختیار کی؟ اس سوال کے جواب میں ہیوسٹن پولیس کے اسسٹنٹ پولیس چیف کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے میری طرح اگر آپ لوگوں کی فکر کرتے ہیں ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور اگر آپ دوسروں کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈال سکتے ہیں تو ضرور پولیس فورس جوائن کریں بہرحال کسی نہ کسی کو تو ہماری جگہ لینی ہوگی لیکن اس پیشے میں عزت ہے، وقار ہے اور احساس ذمہ داری ہے جو آپ کو دوسروں سے منفرد بناتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ