امریکہ کا دیوالیہ ہونا معیشت اور عوام کے لیے تباہ کن ہوگا: جو بائیڈن

صدرجو بائیڈن نے کانگریس کے ریپبلکن ارکان کے ساتھ مذاکرات کو نتیجہ خیز قرار دیتے ہوئے بدھ  کو اعلان کیا کہ انہیں یقین ہے کہ امریکہ غیر معمولی اور ممکنہ طور پر تباہ کن دیوالیے سے بچ جائے گا۔

امریکی صدر جو بائیڈن وائٹ ہاؤس کے روزویلٹ نامی کمرے میں 17 میی 2023 کو امریکہ کے قرضوں پر مذاکرات کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں (اے ایف پی)

امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم نے اپنے قرضے ادا نہیں کیے تو یہ امریکی معیشت اور امریکی عوام کے لیے تباہ کن ہوگا۔‘

امریکی خبررساں ادارے اے پی کے مطابق صدرجو بائیڈن نے کانگریس کے ریپبلکن ارکان کے ساتھ مذاکرات کو نتیجہ خیز قرار دیتے ہوئے بدھ  کو اعلان کیا کہ انہیں یقین ہے کہ امریکہ غیر معمولی اور ممکنہ طور پر تباہ کن دیوالیے سے بچ جائے گا۔

وہ جاپان میں ہونے والے جی سیون سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہوچکے ہیں لیکن ان کا ارادہ تھا کہ اختتام ہفتہ تک واپس آجائیں گے کیوں کہ انہیں امید ہے کہ ایک ٹھوس معاہدہ ہو جائے گا۔

جو بائیڈن کا یہ پرجوش بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مذاکرات کاروں کے ایک منتخب گروپ نے یکم جون سے قرضوں کی حد بڑھانے کی راہ ہموار کرنے کے لیے بجٹ اخراجات کے معاہدے کے حتمی خدوخال طے کرنے کی کوشش شروع کی ہے۔ عین اسی وقت محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ امریکہ دیوالیہ ہونا شروع ہو سکتا ہے۔

امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس سے کہا ہے کہ ’مجھے یقین ہے کہ بجٹ پر ہمارا معاہدہ ہو جائے گا اور امریکہ ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔‘ بعد ازاں بدھ کی شام کیپیٹل ہل میں مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے تھے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے جو بائیڈن اور ریپبلکن ایوان نمائندگان کے سپیکرکیون میک کارتھی کئی ہفتوں سے ایک دوسرے کو قرضوں کی حد میں تعطل کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔

لیکن جوبائیڈن نے کانگریس کے رہنماؤں کے ساتھ وائٹ ہاؤس کے حالیہ اجلاس کے بارے میں کہا ہے کہ ’میرے خیال میں اجلاس میں ہر کوئی نیک نیتی سے آیا تھا۔ میک کارتھی بھی پرجوش تھے۔‘

صدر کا کہنا تھا کہ بجٹ مذاکرات اب بھی قرضوں کی حد کے معاملے سے الگ ہیں لیکن سپیکر نے کہا کہ جو بائیڈن مذاکرات سے انکار سے ’بالآخر پیچھے ہٹ‘ گئے ہیں۔

میک کارتھی نے بعد میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’کام جاری رکھیں- ہم آج رات دوبارہ کام کریں گے۔ ہم اس وقت تک کام کریں گے جب تک کہ ہم اسے مکمل نہیں کر لیتے۔‘

جوبائیڈن نے کہا کہ منگل کو اوول آفس کے اجلاس میں شریک ہر رہنما، نائب صدر کمیلا ہیرس، میک کارتھی، ایوان نمائندگان کے اقلیتی رہنما حکیم جیفریز، سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومر اور سینیٹ کے اقلیتی رہنما مچ میک کونل نے اس بات پر اتفاق کیا کہ امریکہ کو ڈیفالٹ نہیں کرنا چاہیے۔

امریکی صدر نے کہا کہ اگر ہم نے اپنے قرضے ادا نہیں کیے تو یہ امریکی معیشت اور امریکی عوام کے لیے تباہ کن ہوگا۔ ’مجھے یقین ہے کہ کمرے میں ہر کوئی اس سے اتفاق کرتا ہے کہ ہم متفق ہوجائیں گے کیوں کہ کوئی متبادل نہیں ہے۔ ہمیں ملک کے لیے صحیح کام کرنا ہے۔ ہمیں آگے بڑھنا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ہیروشیما میں ہونے والی کانفرنس کے دوران وہ وائٹ ہاؤس کے حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہیں گے۔

وہ آسٹریلیا اور پاپوا نیو گنی میں قیام منسوخ کر رہے ہیں تاکہ وہ اتوار کو واشنگٹن واپس آسکیں۔

جو بائیڈن اور میک کارتھی نے اپنے چند نمائندوں کو ذمہ داری سونپی ہے کہ حتمی معاہدے کو جلد حتمی شکل دینے کی کوشش کریں۔

میک کارتھی نے کہا ہے کہ وہ اختتام ہفتہ تک واشنگٹن میں رہیں گے جب کہ مذاکرات جاری ہیں۔ مذاکرات کاروں کے معاہدے کے بعد کسی بھی معاہدے کو ڈیموکریٹک سینیٹ اور ریپبلکن ایوان کی منظوری درکار ہوگی۔

ڈیموکریٹس اس لیے پریشان ہیں کہ سرکاری امداد کے کچھ وصول کنندگان کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے اور ریپبلکن ڈیموکریٹس کی حمایت سے کہیں زیادہ سخت بجٹ پابندیاں چاہتے ہیں۔

جوبائیڈن اور میک کارتھی کے مثبت بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ وہ اپنی پارٹیوں کے قانون سازوں کی حمایت حاصل کرسکتے ہیں۔

ایوان نمائندگان اور سینیٹ سے تعلق رکھنے والے انتہائی قدامت پسند ریپبلیکن ارکان نے بدھ کو کیپیٹل ہیل کی سیڑھیوں پر میک کارتھی کی حمایت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔

اس وقت امریکہ کا قومی قرضہ 31.4 کھرب ڈالر ہے۔ قرضوں کی حد میں اضافے سے نئے وفاقی اخراجات کی اجازت نہیں ہوگی۔ یہ صرف اس چیز کی ادائیگی کے لیے قرض لینے کی اجازت دے گا جو کانگریس پہلے ہی منظور کر چکی ہے۔

معاہدے کے خدوخال نظر آنا شروع ہوگئے ہیں، لیکن اخراجات میں کٹوتی اور پالیسی میں تبدیلیوں کی تفصیلات سے اس بات کا تعین ہوگا کہ منقسم کانگریس وائٹ ہاؤس کے ساتھ دو طرفہ معاہدہ کر سکتی ہے یا نہیں۔

پیسوں کی ادائیگی جاری رکھنے کے لیے قرضوں کی حد ختم کرنے کے بدلے میں ایوان نمائندگان کے نئے اکثریتی ریپبلیکن ارکان آئندہ دہائی کے دوران بجٹ کی حد ایک فیصد سالانہ سے زیادہ نہ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اب جب کہ حکومت نے کرونا وبا کی ایمرجنسی ختم کر دی ہے تو مذاکرات کار کوڈ 19 کی 30 ارب ڈالر کی خرچ نہ ہونے والی امداد واپس لینے کی تیاری کر رہے ہیں۔

لیکن ڈیموکریٹس اخراجات پر 10 سال کی حد کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جسے ریپبلکنز نے اپنے ایوان نمائندگان کے بل میں منظور کیا ہے، اور ڈیموکریٹس اس کے بجائے بجٹ میں کٹوتی پر زور دے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جو بائیڈن کو ترقی پسند ڈیموکریٹس کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا ہے کیونکہ ان کی وجہ سے سخت کام کرنا پڑ سکتا ہے۔

تاہم انہوں نے بدھ کو اس بات پر زور دیا کہ کام کے نئے تقاضے زیادہ اہم نہیں ہوں گے۔ اور یہ بھی کہ وہ صحت کے پروگراموں پر اثر انداز ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔

میک کارتھی کو اب بھی کسی بھی حتمی معاہدے کے لیے ایوان نمائندگان میں اپنی محدود اکثریت کو برقرار رکھنے کے لیے کام کرنا ہے۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ریپبلکنز کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ اگر انہیں جوبائیڈن سے وہ سب کچھ نہیں ملتا جو وہ چاہتے ہیں تو وہ ’ڈیفالٹ کریں۔‘

چیک شومر نے بدھ کو کہا کہ ’دو طرفہ تعلقات کی ضرورت ہے۔ آگے بڑھنے کا یہ واحد راستہ ہے۔‘

ایوان نمائندگان کے ڈیموکریٹک رہنما حکیم جیفریز نے بدھ کو ایک ایسے عمل کا آغاز کیا جس کے تحت قرضوں کی حد بڑھانے پر ووٹنگ درکار ہوگی۔

یہ قانون سازی کا ایک پیچیدہ طریقہ کار ہے، لیکن جیفریز نے ایوان نمائندگان کے ڈیموکریٹس پر زور دیا کہ وہ اس اقدام پر دستخط کریں تاکہ ریپبلکنز سمیت 218 اکثریتی حامیوں کو جمع کیا جا سکے۔

جیفریز نے اپنے ساتھیوں کو لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ ’وائٹ ہاؤس کے اجلاس سے باہر نکلتے ہوئے مجھے امید ہے کہ ایک قابل قبول اور دو طرفہ حل تلاش کرنے کے لیے ایک حقیقی راستہ موجود ہے جو ڈیفالٹ کو روکے تاہم، یکم جون کی آنے والی ڈیڈ لائن اور اس وقت کی ہنگامی صورتحال کو دیکھتے ہوئے، یہ ضروری ہے کہ کوئی معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں تمام قانونی آپشنز پر عمل کیا جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا