امریکہ میں جمعے کو جاری ہونے والی دستاویزات سے سامنے آیا ہے کہ تحقیقاتی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے امریکی شہریوں کے ذاتی رابطوں کے اس ڈیٹا بیس کا لاکھوں بار غلط استعمال کیا جس تک رسائی حاصل نہیں کی جا سکتی۔
دستاویزات کے مطابق ایف بی آئی نے جرائم کے متاثرین اور سیاہ فام شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف احتجاج ’بلیک لائیوز میٹر‘ کے دوران اور 2021 میں امریکی کانگریس کی عمارت کیپیٹل ہل پر حملے میں حصہ لینے والے افراد کے نام تلاش کیے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق خفیہ فارن سرویلنس انٹیلی جنس کورٹ کے عام کیے جانے والے فیصلے میں کہا گیا کہ ’ایف بی آئی نے نے حالیہ برسوں میں امریکی شہریوں کے ڈیٹا بیس تک دو لاکھ 78 ہزار بار رسائی حاصل کی جس کا اکثر کوئی جواز نہیں تھا۔‘
اس ڈیٹا بیس میں نجی ای میلز، ٹیکسٹ میسیجز اور دیگر رابطے شامل ہیں جن کے بارے میں نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کا کہنا ہے کہ وہ غیر ملکیوں کی جاسوسی کرتے وقت یہ مواد اکٹھا کرتی ہے۔
اگرچہ ایف بی آئی اور این ایس اے کے ڈیٹا بیس کو صرف غیر ملکی انٹیلی جنس کے معاملے کی تحقیقات کرتے وقت دیکھ سکتی ہیں لیکن عدالتی رائے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسے داخلی معاملات میں بھی استعمال کرتی رہی ہے۔
امریکہ کے وفاقی ایجنٹوں نے ملک میں منشیات اور جرائم پیشہ گروپس کے خلاف تحقیقات، سیاہ فام امریکی جارج فلوئڈ کے پولیس کے ہاتھوں قتل پر 2020 میں ہونے والے احتجاج اور چھ جنوری 2021 کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے امریکی کانگریس کی عمارت پر دھاوا بولنے معاملات میں لوگوں کو تلاش کرنے کے لیے ڈیٹا بیس سے کام لیا۔
ایک معاملے میں ایک ایجنٹ نے ڈیٹا بیس میں ان 19 ہزار افراد کو تلاش کیا جنہوں نے کانگریس کی انتخابی مہم میں عطیہ دیا تھا۔
انٹیلی جنس عدالت نے کہا کہ ’ہر ایک کیس میں ایف بی آئی کی ڈیٹا بیس تک رسائی کے لیے کسی غیر ملکی انٹیلی جنس یا اندرون ہونے والے جرائم کا جواز موجود نہیں تھا۔‘
یہ دستاویزات اس وقت جاری کی گئیں جب کانگریس دفعہ 702 کی تجدید پر بحث کر رہی ہے۔
یہ وہ قانون ہے جو این ایس اے کو غیر ملکی انٹیلی جنس اہداف کی نگرانی کے لیے امریکہ میں موجود انٹرنیٹ اکاؤنٹس تک رسائی کی اجازت دیتا ہے۔
متعدد قانون سازوں کا کہنا ہے کہ ’امریکی شہریوں کی ذاتی معلومات کو بہتر طریقے سے محفوظ کرنے کے لیے اس قانون پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔‘
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ایف بی آئی کی جانب سے ان خلاف ورزیوں کی تفصیل گذشتہ سال غیر ملکی انٹیلی جنس سرویلنس کورٹ کے جاری کردہ خفیہ عدالتی حکم نامے میں دی گئی ہے۔
یہ عدالت امریکی حکومت کے جاسوسی اختیارات کی قانونی اعتبار سے نگرانی کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کے دفتر نے جمعے کو عدالتی حکم کا ترمیم شدہ ورژن جاری کیا۔
حکم نامہ عام کرنے کے بارے میں حکام نے کہا کہ ’ایسا کرنا شفافیت کے مفاد میں ہے۔‘
کانگریس کے ارکان کو یہ حکم نامہ اس وقت موصول ہوا جب اسے گذشتہ سال جاری کیا گیا تھا۔
امریکن سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) کے قومی سلامتی پروجیکٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر پیٹرک ٹومی نے کہا کہ ’آج کے انکشافات اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کانگریس اس قانون کی ایف بی آئی کی طرف سے سنگین خلاف ورزیوں کو لگام دے۔ ان خلاف ورزیوں میں ان لوگوں کا نام استعمال کرتے ہوئے بلا اجازت سرچز بھی شامل ہیں جنہوں نے کانگریس کے امیدوار کو چندہ دیا تھا۔‘
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ ’ایف بی آئی نے اپنی سرچز کے ذریعے ڈیٹا بیس کے استعمال سے متعلق ’ایف آئی ایس اے ایکٹ‘ کی دفعہ 702 کے تحت بنائے گئے قواعد کی خلاف ورزی کی۔‘
فیصلے میں کہا گیا کہ ’عدالت کو خاص طور پر معلوم ہوا کہ 2016 اور 2020 کے درمیان جرائم کی تحقیقات کے حصے کے طور پر سرچز میں قواعد کی خلاف ورزی کی گئی کیوں کہ اس بات کی توقع کی کوئی معقول بنیاد نہیں تھی کہ سرچ کے نتیجے میں غیر ملکی انٹیلی جنس یا جرم کے ثبوت سامنے آئیں گے۔ اگرچہ ایف بی آئی کا ماننا تھا کہ اس بات کا ’مناسب امکان‘ ہے۔‘
ایف بی آئی کے ترجمان نے اس ضمن میں تبصرے کی درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔