کرکٹ کی چمکتی دنیا لیکن دیگر کھیل حالات کے رحم و کرم پر

پاکستان میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب وہ ایک دو نہیں بلکہ بیک وقت چار کھیلوں میں عالمی چیمپیئن تھا جن میں کرکٹ، ہاکی، سکواش اور سنوکر شامل تھے، لیکن آج کرکٹ کوچھوڑ کر ملک میں تمام کھیلوں پر مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان پانچ مئی 2023 کو کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں (اے ایف پی)

پاکستان میں کھیلوں پر نظر ڈالیں تو صرف کرکٹ کی دنیا چمکتی نظرآتی ہے۔

انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے ہوتے ہیں اس کی وجہ معاشی طور پر ان کا خوشحال ہونا ہے۔ وہ اس لیے خوش حال ہیں کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ مالی طور پر مستحکم ہے، جو ان کرکٹرز کو چاہے وہ مرد کرکٹرز ہیں یا خواتین کھلاڑی، سب کو کھیل کے لیے ضروری تمام بنیادی سہولتیں فراہم کر رہا ہے اور ان تمام کھلاڑیوں کو بین الاقوامی سطح پر کھیلنے کے بھرپور مواقعے بھی میسر آرہے ہیں۔

نہ صرف موجودہ کرکٹرز بلکہ ریٹائرڈ کرکٹرز کو بھی پینشن کی سہولت حاصل ہے۔

اس کے برعکس اگر ہم ملک میں دوسرے کھیلوں پر نظر ڈالیں تو صورت حال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ ان کھیلوں کی فیڈریشنوں کے اپنے مسائل ہیں اور ان مسائل سے براہ راست ان کے کھلاڑی متاثر ہو رہے ہیں۔

رشک اور حسد کے جذبات انسانی فطرت میں شامل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اکثر یہ باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ ساری توجہ کرکٹ پر ہی ہے باقی کھیل نظرانداز کیے جا رہے ہیں۔

یہ اعتراض کرنے والے یقینی طور پر تصویر کا صرف ایک رخ دیکھ کر اپنے خیالات کا اظہار کردیتے ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ بلکہ مکمل تصویر یہ ہے کہ پاکستان میں کرکٹ وہ واحد کھیل ہے جو خود اپنے پیروں پر کھڑا ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ ملک میں کھیلوں کا وہ واحد ادارہ ہے جو اپنے معاملات چلانے کے لیے حکومت سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتا بلکہ ہم وہ وقت بھی دیکھ چکے ہیں جب پاکستان کرکٹ بورڈ نے مالی مشکلات سے دوچار پاکستان ہاکی فیڈریشن کی مالی مدد کی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ملک میں ہاکی اور کرکٹ دونوں کی باگ ڈور دو فوجی جرنیلوں کے ہاتھوں میں تھی۔

پاکستان میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب وہ ایک دو نہیں بلکہ بیک وقت چار کھیلوں میں عالمی چیمپیئن تھا جن میں کرکٹ، ہاکی، سکواش اور سنوکر شامل تھے، لیکن آج کرکٹ کوچھوڑ کر ملک میں تمام کھیلوں پر مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔

اس کی کئی وجوہات ہیں، پاکستان میں کرکٹ کو چھوڑ کر دیگر تمام کھیل اور ان کھیلوں کو چلانے والی فیڈریشنیں حکومت کی طرف سے ملنے والی سرکاری گرانٹ پر انحصار کرتی ہیں جو بہت کم ہے۔

پاکستان میں کھیلوں کے معاملات چلانے کے دو ادارے ہیں۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور پاکستان سپورٹس بورڈ،  لیکن ان دونوں کے درمیان اختلافات نے ملک میں کھیلوں کی تباہی بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔

 پاکستان سپورٹس بورڈ حکومتی ادارہ ہے جس کا کام ملک میں انفراسٹرکچر، ٹریننگ اور کوچنگ کی فراہمی ہے، لیکن چونکہ سرکاری ادارہ ہے اور بین الصوبائی رابطے کی وزارت کے ماتحت ہے لہذا ہر حکومتی تبدیلی کے نتیجے میں یہاں ایک نیا وزیر اور ایک نیا ڈائریکٹر جنرل سپورٹس بورڈ ہمیں نظر آتا ہے۔ اس ادارے کے اپنے اخراجات ہیں۔ کھیلوں کے لیے مختص بجٹ کا اچھا خاصا حصہ سپورٹس بورڈ کے افسران اور دیگر عملے کی تنخواہوں اور دیگر اخراجات میں چلا جاتا ہے۔

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا براہ راست تعلق انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی سے ہے اور ملک میں موجود کھیلوں کی فیڈریشنیں بھی پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے تحت آتی ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور پاکستان سپورٹس بورڈ کے درمیان اختیارات کے معاملے پر ہونے والی کھینچا تانی اور اختلافات کا براہ راست نقصان کھیلوں اور کھلاڑیوں کو ہوتا رہا ہے۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا مؤقف یہ رہا ہے کہ وہ پاکستان سپورٹس بورڈ یا حکومت کے ماتحت نہیں ہے۔

ہم وہ وقت بھی دیکھ چکے ہیں جب حکومتی مداخلت نے ملک میں ایک متوازی اولمپکس ایسوسی ایشن بھی بنا دی اور صورت حال اس حد تک خراب ہوگئی تھی کہ یہ معاملہ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (آئی او سی) تک جا پہنچا تھا، جس نے پاکستان کی اولمپک رکنیت معطل کرنے کی دھمکی دے ڈالی تھی۔

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پر الزام لگتا رہا ہے کہ وہ اپنے من پسند عہدیداروں کو غیر ملکی دوروں کے سیرسپاٹے کراتی رہتی ہے۔

اس وقت بھی ملک میں متعدد متوازی فیڈریشنیں موجود ہیں، جنہیں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن تسلیم نہیں کرتی۔ اس صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان کھلاڑیوں کا ہوا ہے، جیسا کہ پاکستان ایتھلیٹک فیڈریشن کو پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن نے ڈوپنگ کے معاملے میں معطل کر رکھا ہے۔

اب ایتھلیٹس کے لیے مشکل ہے کہ وہ کس طرح مقابلوں میں حصہ لیں۔ اس کی تازہ ترین مثال حالیہ نیشنل گیمز ہیں جب ایک موقعے پر ایسا دکھائی دیتا تھا کہ ایتھلیٹکس کے مقابلے منعقد ہی نہیں ہوسکیں گے جو بعد میں کسی صورت میں منعقد ہوگئے۔

ارشد ندیم جنہوں نے کامن ویلتھ گیمز کے جیولن تھرو میں گولڈ میڈل جیتا تھا، اس کے بعد سے ان کی بیرون ملک ٹریننگ کے بارے میں کوئی خبر سننے کو نہیں ملی۔ اس کے مقابلے میں انڈیا کے نیرج چوپڑا کے لیے سہولتوں کی کوئی کمی نہیں ہے اور وہ نہ صرف بیرون ملک ٹریننگ جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ بین الاقوامی مقابلوں میں بھی حصہ لے رہے ہیں اور حال ہی میں انہوں نے قطر میں گولڈ میڈل بھی جیتا ہے۔

اسی طرح دو متوازی فیڈریشنوں کا نقصان کامن ویلتھ گیمز میں گولڈ میڈل جیتنے والے ویٹ لفٹر نوح دستگیر بٹ کو بھی ہوا ہے اور وہ بمشکل پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے بینرتلے نیشنل گیمز میں حصہ لے پائے۔

اگر ہم ہاکی میں دیکھیں تو ایک روشن ماضی کے بعد بدحالی سے دوچار ہونے والے اس قومی کھیل کو کسی اور نے نہیں بلکہ ہمارے سابق اولمپینز نے ہی تباہی کے دہانے تک پہنچایا ہے۔ وہ جب فیڈریشن میں آئے تو انتظامی معاملات چلانے میں ناکام رہے اور ان پر مالی اور انتطامی بے ضابطگیوں کے الزامات لگے، آج ہاکی جس مقام پر آ پہنچی ہے اس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔

حکومت، پاکستان ہاکی فیڈریشن کو تسلیم نہیں کرتی اور اس نے تین رکنی کمیٹی بنا رکھی ہے جبکہ فیڈریشن اس اقدام کو غیرآئینی قرار دیتی ہے۔ جونیئر ایشیا کپ میں پاکستانی ٹیم فائنل تک پہنچ گئی لیکن کھلاڑی ڈیلی الاؤنس تک سے محروم رہے۔

آج پاکستان کی ہاکی کا یہ حال ہے کہ کسی زمانے میں پورے گیارہ کھلاڑیوں کے نام ان کی فیلڈ پوزیشنوں کے ساتھ ہر ایک کو ازبر ہوا کرتے تھے آج کسی سے پوچھیں کہ وہ پاکستانی ہاکی ٹیم کے گیارہ کھلاڑیوں کے نام بتا دے تو آپ کو مایوسی ہو گی۔

ہمارے یہاں غیرملکی کوچز بلانے کی باتیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن جب ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے ہاکی کوچ ایکمین کو ان کی تنخواہ دینے کی بات آئی تو پاکستان سپورٹس بورڈ پیچھے ہٹ گیا، جس کی یہ ذمہ داری بنتی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سال کی تنخواہ سے محروم ایکمین استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے لیکن حیران کن طور پر ہاکی فیڈریشن ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے رولینٹ آلٹمینز کو جونیئر ٹیم کا کوچ بناکر دوبارہ پاکستان لے آئی ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ انہیں تنخواہ کون اور کس طرح دے گا کیونکہ ہاکی فیڈریشن کے مالی مشکلات کے گلے شکوے کبھی ختم نہیں ہوتے۔

نواز شریف کی حکومت ہو یا یوسف رضا گیلانی کی،  دونوں حکومتوں میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کو کروڑوں روپے کی گرانٹ ملتی رہی لیکن وہ پیسہ کہاں خرچ ہوا اس کا حساب کتاب کاغذوں پر تو درج ہوگا لیکن عملی طور پر کہیں نظر نہیں آیا۔

پاکستان میں سکواش کا سارا کنٹرول پاکستان ایئرفورس کے افسران پر مشتمل پاکستان سکواش فیڈریشن کے ہاتھوں میں ہے لیکن ان افسران کی ایئرفورس میں ترقی اور تبادلوں کی وجہ سے سکواش فیڈریشن میں بھی تسلسل نظر نہیں آتا اور ہر تھوڑے عرصے کے بعد نئے عہدیداران دکھائی دیتے ہیں۔ رہے کھلاڑی تو چند ایک نوجوان کھلاڑیوں کے علاوہ ہمیں غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل کھلاڑی نظر نہیں آتے اور نہ ہی سینیئر سطح پر کوئی قابل ذکر نام موجود ہے۔ جہانگیر خان اور جان شیر خان کے کارنامے ماضی کا قصہ بن چکے۔

سنوکر ایک ایسا کھیل ہے جس میں پاکستانی کھلاڑی سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے باوجود بین الاقوامی سطح پر نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے آرہے ہیں لیکن ان کے مسائل سننے والا کوئی نہیں ہے۔

پاکستان نے کسی بھی کھیل میں سب سے زیادہ تمغے باکسنگ میں جیتے ہیں لیکن پروفیسر انور چوہدری دنیا سے کیا رخصت ہوئے باکسنگ رنگ بھی ویران ہوگئے۔ ٹیلنٹ موجود ہے لیکن انہیں کون ٹریننگ دے؟ نہ اب کیوبن کوچز یہاں آتے ہیں نہ پاکستانی باکسرز بیرون ملک ٹریننگ کے لیے جاتے ہیں۔

فٹ بال نے ہمیشہ حالات کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا ہے۔ کبھی عدالتوں کے فیصلے۔ کبھی فیڈریشن میں دھڑے بندی اور کبھی سرکاری مداخلت۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ گذشتہ چھ برسوں کے دوران دو مرتبہ فیفا نے پاکستان فٹبال فیڈریشن کی رکنیت معطل کی۔ اس وقت ایک نارملائزیشن کمیٹی فٹ بال کے معاملات چلا رہی ہے جس کا سربراہ ایک ایسے شخص کو بنایا گیا ہے جو ملک میں رہتا ہی نہیں ہے۔

اس کمیٹی کے ذمے پورے ملک میں فٹ بال کلبوں کی سکروٹنی کرکے الیکشن کرانا ہے لیکن یہ کمیٹی اور اس کے کرتا دھرتا اپنی مدت میں توسیع کے خواہش مند ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کرسی (اختیارات) اور فیفا کی جانب سے ملنے والے پیسے کی چمک دمک کی وجہ سے یہ عہدیدار بھی مزید کچھ عرصہ مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماضی میں فیفا کی جانب سے ایک بڑی رقم پاکستان فٹ بال فیڈریشن کو دی جاتی رہی ہے لیکن فیفا نے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ رقم کہاں خرچ ہوئی اور کہاں گئی؟ گول پروجیکٹ کے منصوبے کہاں گئے؟

واضح رہے کہ فیفا کی جانب سے پاکستان فٹ بال فیڈریشن کو ہر سال ڈیولپمنٹ پروگرام کی مد میں 12 لاکھ پچاس ہزار ڈالرز ملتے رہے ہیں۔

پاکستان میں کھیلوں کی تباہی اور بربادی میں ایک اہم کردار اس سپورٹس پالیسی کا بھی ہے جو سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں سامنے آئی کیونکہ عمران خان کو ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کے نام سے چڑ تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بھر کے اداروں میں قائم کھیلوں کے شعبے ختم کر دیے گئے، ان کی ٹیمیں ختم کردی گئیں جس کا سب سے بڑا نقصان بڑی تعداد میں کھلاڑیوں کی بے روزگاری کی صورت میں سامنے آیا۔

پاکستان کے انٹرنیشنل فٹ بالر صدام حسین نے، جوسوئی سدرن گیس میں ملازم تھے، اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کیا لیکن اس کیس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوسکا ہے۔

آج پاکستان فٹ بال فیڈریشن بیرون ملک مقیم پاکستانی کھلاڑیوں کو تلاش کرکے انہیں فٹ بال ٹیم میں شامل کررہی ہے لیکن ملک میں موجود باصلاحیت کھلاڑیوں کی طرف وہ دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ فٹ بال کا ڈھانچہ تباہی سے دوچار ہے۔ آٹھ سال نیشنل فٹ بال لیگ منعقد نہیں ہوسکی۔ اداروں کی فٹ بال ٹیمیں ختم ہوچکی ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ آج تک اس ملک میں ایک بھی بین الاقوامی معیار کا فٹ بال سٹیڈیم نہیں بن سکا۔ آج فٹ بال کی تباہی بربادی کو محسوس کرنا ہے تو کراچی میں واقع سب سے قدیم فٹ بال میدان کے ایم سی سٹیڈیم کو جا کر دیکھ لیں، پوری کہانی سمجھ میں آجائے گی۔

 پاکستان اگر آج فیفا کی عالمی رینکنگ کے 211 ممالک میں 195 ویں نمبر پر ہے تو اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ