کشمیر ضمنی انتخابات: پیپلز پارٹی کے ہاتھوں مسلم لیگ ن کو شکست

قانون ساز اسمبلی کی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی پہلے، مسلم لیگ ن دوسرے اور تحریک انصاف تیسرے نمبر پر رہی۔

الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے سردار ضیا القمر نے 25 ہزار سات سو 55 ووٹ حاصل کیے(تصویر: جلال الدین مغل)

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع باغ میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار ضیا القمرحسب توقع اپنے مد مقابل مسلم لیگ ن کے امیدوار مشتاق منہاس کو شکست دے کر رکن قانون ساز اسمبلی منتخب ہو گئے۔ اس انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف تیسرے نمبر پر رہی۔

 تاہم انتخابی مہم اور پولنگ کے درمیان دونوں جماعتوں کے درمیان زبردست کشمکش رہی۔

ہارنے والے جماعت مسلم لیگ نون کے امیدوار مشتاق منہاس انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد اپنے حریف ضیا القمر سے گلے ملے اور انہیں مبارکباد دی، تاہم وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی عطا تارڑ اور سابق رکن پنجاب اسمبلی حنا پرویز بٹ سمیت مسلم لیگ کے بعض قائدین نے پیپلز پارٹی پر دھاندلی کا الزام لگایا ہے۔

 البتہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم لیگ ن یا تحریک انصاف کی قیادت ان نتائج پر کوئی فوری ردعمل دینے سے گریز کیا ہے۔

جمعرات کے روز ہونے والے اس انتخاب کے بعد الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے سردار ضیا القمر نے 25 ہزار سات سو 55 ووٹ حاصل کیے۔

ان کے مد مقابل مسلم لیگ ن کے راجہ مشتاق منہاس 20 ہزار چار سو 85 ووٹ حاصل کر سکے جبکہ تیسرے نمبر پر آنے والے پاکستان تحریک انصاف کے راجہ ضمیر محض چار ہزار نو سو 42 ووٹ حاصل کر پائے۔

الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس حلقے میں ووٹوں کی کل تعداد ایک لاکھ ایک ہزار ایک سو پنتالیس ہے۔ جن میں سے53 ہزار 107 مرد اور 48 ہزار 38 خواتین ووٹر شامل ہیں۔

انتخابات میں 18 امیدوار مد مقابل تھے جبکہ 52 ہزار 671 ووٹ پول ہوئے اور ووٹ پول ہونے کی شرح 37 فیصد رہی۔

پولنگ کے دوران سیکورٹی کے کافی سخت انتظامات کیے گئے گئے اور پولیس کے ساتھ ساتھ فرنٹیئر کانسٹیبلری کو بھی تعینات کیا تھا۔

تاہم اس کے باوجود بعض پولنگ اسٹیشنز پر مخالف سیاسی گروپوں کے درمیان دھکم پیل اور تصادم کے اکا دکا واقعات سامنے آئے۔

پیپلز پارٹی پر دھاندلی کا الزام

مسلم لیگ کے بعض رہنماوں نے پیپلز پارٹی پر دھاندلی اور جعلی ووٹ پول کرنے کا الزام عائد کیا ہے تاہم انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے پر کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی۔

وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی عطااللہ تارڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ بعض پولنگ اسٹیشنز پر 90 فیصد ووٹ پول ہوئے۔ ایک ٹویٹ میں عطااللہ تارڑ نے لکھا کہ، 'اگر بعض جگہوں پر 90 فیصد تک ووٹ پول نہ ہوتے تو شائد نتائج مختلف ہوتے۔‘

مسلم لیگ ن کی ایک اور رہنما اور سابق رکن پنجاب اسمبلی حنا پرویز بٹ نے ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے پیپلز پارٹی پر ضمنی انتخابات میں جعلی ووٹ پول کرنے کا الزام عائد کیا۔

انہوں نے لکھا کہ ’پاکستان پیپلز پارٹی نے ٹھپے لگانے والا کام کشمیر میں بھی دکھا دیا۔‘

پیپلز پارٹی کا جشن

 پیپلز پارٹی کے کسی رہنما نے ان الزامات پر کوئی فوری رد عمل دینے سے گریز کیا ہے تاہم پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت کئی راہنماوں نے اس کامیابی پر سردار ضیا القمر اور پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت کو مبارکباد دی ہے۔

 بلاول بھٹو ذرداری نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’کراچی اور ملتان کے بعد آزاد کشمیر کے ضمنی انتخابات میں بھی تیر چل گیا۔ میں ضلع باغ کے عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے جیالے امیدوار کو کامیاب کروایا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی کراچی سے کشمیر تک انتخابی کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام کا ہماری پالیسیوں پر مکمل اعتماد ہے۔‘

سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نےبھی سردار ضیا القمر کو کامیابی پر مبارک باد دی اور ضلع باغ کے عوام کا شکریہ ادا کیا۔

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ’ضلع باغ کے عوام نے بھی پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کراچی سے کشمیر تک ایک زندہ حقیقت ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی ملک میں وفاق کی علامت ہے۔ ہم نے پہلے بھی پاکستان کو بچایا ہے، ہم اب بھی ملک کو سنواریں گے۔‘

پس منظر

یہ نشست پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار تنویرالیاس کی توہین عدالت کے مقدمے میں ہائی کورٹ سے نا اہلی کے بعد خالی ہوئی تھی۔

2021 میں ہونے والے انتخابات میں اس حلقے سے پی ٹی آئی کے سردار تنویر الیاس 20 ہزار 10 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے جبکہ پیپپلز پارٹی کے سردار ضیا القمر دوسرے اور مسلم لیگ نون کے راجہ مشتاق منہاس تیسرے نمبر پر رہے تھے۔

سابق وزیر اعظم سردار تنویرالیاس کو رواں سال اپریل میں عدلیہ مخالف تقریر پر ہائی کورٹ نے توہین عدالت کی کاروائی کرتے ہوئے نا اہل قرار دیا اور ان کی اسمبلی کی رکنیت خالی قرار دیکر الیکشن کمیشن کو اس پر از سر نو انتخابات کا حکم دیا۔

تنویر الیاس اس حلقے سے اپنے چھوٹے بھائی سردار یاسر الیاس کو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑوانے کے خواہش مند تھے مگر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے وزارت عظمی سے ہٹائے جانے کے بعد نہ صرف پارٹی کی صدارت واپس لے لی بلکہ ان سے غیر اعلانیہ فاصلہ اختیار کر لیا۔

ٹکٹ ملنے سے مایوسی کے بعد تنویر الیاس نے پی ٹی سے علیحدہ ہونے کا اعلان کر دیا اور پی ٹی آئی نے اس حلقے سے کرنل راجہ ضمیر کو ٹکٹ جاری کیا جو پانچ ہزار سے کچھ کم ووٹ ہی حاصل کر سکے۔

پی ٹی آئی کے اندرونی خلفشار اور ممبران اسمبلی کے ایک بڑے دھڑے کے علیحدہ ہو کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر نئی مخلوط حکومت تشکیل دینے کے بعد پی ٹی آئی اس حلقے میں کوئی قابل ذکر جلسہ کر سکی اور نہ انتخابی مہم چلا سکی۔

جبکہ دوسری جانب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ان ضمنی انتخابات کے لیے بھرپور مہم چلائی۔

وفاقی وزرا کی اعلانیہ و غیر اعلانیہ انتخابی مہم

انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو ذرداری اور وفاقی وزیر امور کشمیر قمر الزمان کائر نے اس حلقے کا دورہ اور باغ شہر میں ایک ’احتجاجی‘ جلسے سے خطاب بھی کیا۔

اگرچہ اس جلسے کو بھارت کی جانب سے سری نگر میں جی 20 اجلاس کے تناظر میں ایک احتجاجی اور غیر سیاسی جلسہ قرار دیا تھا کئی لوگوں کے خیال میں انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد اس حلقے میں بلاول بھٹو کے دورے اور جلسے کا اصل مدعا انتخابی مہم کو تقویت پہنچانا ہی تھا۔

مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز کے علاوہ وفاقی وزیر سعد رفیق نے بھی انتخابی جلسے سے خطاب کیا اور رانا ثنا بھی اس حلقے کے دورے پر گئے تاہم پیپلز پارٹی کی جانب سے اعتراضات کے بعد رانا ثنا اللہ کا یہ دورہ مکمل نہیں ہو سکا۔

اس دورے کے دوران رانا ثنا اللہ کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’جو لوگ ٹھپے لگانے کا پروگرام بنا رہے ہیں، میں انہیں یہاں سے ٹھپ کر جاوں گا۔‘

اسی دورے کے بعد ڈپٹی کمشنر باغ کا ایک مکتوب سامنے آیا جس میں ضمنی انتخابات کے دوران تصادم کے پیش نظر حلقے میں رینجرز تعینات کرنے کی درخواست کی گئی تھی تاہم ایسا نہیں ہو سکا اور پولنگ سٹیشنز پر پولیس کے ساتھ فرنٹیر کانسٹیبلری کو تعنیات کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مسلم لیگ ن کے امیدوار کو آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے علاوہ جماعت اسلامی کے ایک دھڑے کی حمایت بھی حاصل تھی جبکہ مقامی صحافیوں کے مطابق پی ٹی آئی کے بعض منحرف اراکین اسمبلی بھی اندرون خانہ مسلم لیگی امیدوار کی مہم چلاتے رہے۔

مد مقابل دونوں جماعتوں نے ان انتخابات پر اپنی بھرپور توجہ مرکوز رکھی اور جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔

 خیال کیا جاتا ہے کہ یہ انتخابات نہ صرف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی آنے والے سالوں کی سیاست کا نقشہ متعین کریں گے بلکہ پاکستان میں متوقع انتخابات پر بھی کسی حد تک اثر انداز ہوں گے۔

دلچسپ طور پر ان انتخابات میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نہ صرف وفاق میں بلکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حال ہی میں بننے والی مخلوط حکومت میں حصہ دار ہیں۔

ضیا القمر کون ہیں؟

سردار ضیا القمر پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سردار قمر الزمان کے فرزند ہیں اوراوائل عمری سے پیپلز پارٹی کی طلبا سیاست کا محور رہے ہیں۔ 2005 میں انہیں پیپلز پارٹی کے طلبا ونگ پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن (پی ایس ایف) کا چیئرمین نامزد کیا گیا۔

وہ 2017 تک اس تنظیم کے سربراہ رہے۔ 2017 میں انہیں طلبا ونگ سے یوتھ ونگ پیپلز یوتھ آرگنائزیشن (پی وائی اور) کا سربراہ بنا دیا گیا۔

 2021 میں پارٹی کی تنظیم نو کے دوران ضیا القمر کو پاکستان پیپلز پارٹی کی کشمیر شاخ کا چیف آرگنائزر نامزد کیا گیا اور وہ اب تک اسی عہدے پر ہیں۔

سردار ضیا القمر اس سے قبل بھی تین مرتبہ انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں تاہم وہ پہلی مرتبہ قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

 2021 کے عام انتخابات میں انہیں اسی حلقے میں سردار تنویر الیاس سے شکست کا سامنا رہا جبکہ دو مرتبہ ایل اے 14 باغ ایک سے بھی شکست کا سامنا کر چکے ہیں۔

ان کے والد سردار قمر الزمان بھی ان دونوں حلقوں سے انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ اس حلقے سے سردار قمر الزمان دو مرتبہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست